Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mutruba Sheikh/
  4. Bunyadi Insani Haqooq, Bunyadi Maloomat

Bunyadi Insani Haqooq, Bunyadi Maloomat

بنیادی انسانی حقوق۔ بنیادی معلومات

آج پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ 10 دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا گیا، انسانیت کی قدروں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہر انسان کو بنیادی انسانی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی فراہمی کے یکساں قوانین بنائے گئے۔ اور انکا اطلاق و احترام ہر ملک۔ پر لازم قرار دیا گیا۔

1966 میں اس ضمن میں مزید دو معاہدے شامل کئے گئے، پہلے معاہدے کے مطابق انسان کےثقافتی، معاشی، سیاسی، معاشرتی حقوق کا احاطہ کیا گیا۔ دوسرے میں صنفی امتیاز کو ختم کرنے یعنی خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، بچوں کی صحت، جبری مشقت اور مناسب تعلیم و تربیت کے حقوق کو لازم کرنے کا احاطہ کیا گیا۔ ماحولیاتی نظام کو انسانی صحت کے نظام کو بہتر رکھنے کے لئے بھی اعلامیے جاری کئے جاتے ہیں۔

ان قواعد و ضوابط کو پاکستان کے 1973 کے آئین میں شامل کیا گیا۔ جس کی شقوں کی بنیاد پر پاکستان کی حدود میں رہنے والے ہر فرد کو۔ مذہب و عقیدے سے بالاتر ہو کر یکساں حیثیت حاصل ہے۔ سب پاکستانی شہری برابر ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ سب کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ریاست پاکستان کے ہر شہری کو یکساں حقوق اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان میں مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں اس عمل میں سر گرم عمل رہتی ہیں کہ پاکستان کے ہر شہری کی بروقت مدد کی جائے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی تک ایک انسان کو ایک شہری کو اسکے بنیادی حقوق ہی نہیں مل سکے ہیں، پینے کے صاف پانی سے لے کر بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت عوام کے لئے میسر نہیں ہے۔ ستر فیصد دیہی آبادی کے لئے مناسب رہائش، بچوں کے لئے اسکول، اسپتال موجود نہیں ہیں۔ ذرائع آمد و رفت محدود ہیں۔ پچھلے بیس سالوں سے جاری دہشت گردی کی جنگ کے نتائج پاکستان پربہت بری طرح اثر انداز ہوئے ہیں۔

دہشت گردی کے ذریعے اسکول و اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مساجد پر حملے کئے گئے، متاثرہ علاقوں سے متاثرین کی بڑے شہروں میں نقل مکانی نے بنیادی انسانی سہولیات کا حصول مزید مشکل بنا دیا ہے۔ افراط زر کی کمی نے عام شہری کی زندگی میں تلخی گھول دی ہے، اس تلخی میں مزید بڑھاوا اس وقت ہو جاتا ہے جب ریاست یا ریا ستی ادارے ایک عام شہری کے مذہبی، ثقافتی و سیاسی حق پر بھی جبرا پابندی لگائیں۔ جب کہ عالمی سطح پر سب انسان برابر قرار دے دیئے گئے ہیں۔ سب کو اپنے مذہبی، ثقافتی، سیاسی معاملات میں بات کرنے اوراپنے موقف کا پرچار کرنے حق ہے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ریاست کی دولت کی طرح انصاف و سیاست بھی وطن عزیز کے چنیدہ ہاتھوں میں ہے، عام آدمی کے لئے انصاف کا حصول ناممکن ہے قانون کی بالادستی اور قانون کی مدد صرف امیر فرد کے لئے ہے۔ عامی اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ انصاف کے حصول کے لئے بھی کوشاں ہے۔

علاج معالجے کے لئے بہترین طبی ماہرین و سہولیات صرف بڑے شہروں میں دستیاب ہیں، جہاں علاج مہنگا ہے۔ سرکاری و نجی اسپتالوں کے طریقہ کار میں واضح امتیاز ہے۔ اقلیت اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔ کیونکہ تعلیمی میدان میں مشکلات کے ساتھ، نوکری کا حصول بھی خاصا مشکل ہوتا ہے، ریاست کا رویہ اس ضمن میں خاصا بے پراوہی لئے ہوئے ہے۔ لسانی و ثقافتی تعصب کے باعث بھی مملکت میں اکثر امن و امان کی صورتحال مخدوش نظر آتی ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی کی بد ترین مثال اس وقت ملک کے سب سے بڑے شہر میں جاری و ساری ہے جہاں انتظامی و سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں۔ شہریوں کو بنیادی انسانی ضرورتوں تک رسائ نہیں ہے۔ بجلی، پینے کا صاف پانی، صفائی کا ناقص انتظام، قبرستانوں میں مخدوش حالت، لواحقین کے قبرستان جانے پر سیا سی وجوہ کی بناء پر پابندی، اسٹریٹ کرائمز کی بھرمار، یہ سب انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے۔ جب کہ شہر سب سے زیادہ زرمبادلہ ملکی معیشت میں داخل کرتا ہے۔

ایک انسان کے ایک پاکستانی کے لئے بنیادی انسانی حقوق کے لئے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ اور اس ضمن میں سب سے پہلا قدم ریاست کو اٹھانا ہوگا۔

Check Also

Som Aur Seyam Mein Farq

By Toqeer Bhumla