Youm e Azadi Par Chand Bikhri Baatein
یومِ آزادی پر چند بکھری باتیں
سمجھ میں نہیں آتا کہ اس برس یوم آزادی پر کیا لکھا جائے کیونکہ اس کے ساتھ ہی پچھلے چوہَتّر برس کا سفر ذہن میں گھوم جاتا ہے۔ قربانیوں سے مزیّن آزادی کی ایک سرگزشت۔ اس کے بعد راہ گم کردہ سفر کی داستاں، جو آج تک جاری ہے۔ اس روز انھی وعدوں اور عَہدوں کی دہرائی، جن کی ہر برس محض لفظی تجدید ہوتی ہے۔ ملک کو سنوارنے اور سر بلند رکھنے کا روایتی عزم۔ ہم آج تک اس پر عمل سے محروم ہیں۔
آزادی کی اہمیت درکنار ہمیں یومِ آزادی کا جشن منانے کا سلیقہ بھی نہیں ہے بلکہ ہم ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید بدسلیقہ ہوتے جاتے ہیں۔ سارے شہروں کا ٹریفک ایک ساتھ انتہائی بدنظمی کے ساتھ سڑکوں پر لے آنا، موٹر سائیکلوں سے سائلنسر نکالنا، گاڑیوں میں تیز آواز میں گانے لگانا، زمین پر جابجا پڑی جھنڈیاں، ٹریفک میں خلل ڈال کر سڑک کے بیچ میں ناچنا اور اب یہ ایک اور نئی ایجاد باجا۔ گھر سے باہر تفریح، گول گپے، برگر یا اپنی استطاعت کے مطابق کسی ریستوران میں کھانا، چائے۔ دو چار چیزیں آگے پیچھے کرلیجیے، کُل ملا کر یہی ہمارا ذوق ہے۔
اب آپ کہیں گے کیا قنوطیت ہے۔ خوشی کے موقع پر جشن ہی منایا جاتا ہے۔ درست، یہ عناصر خوشی کے جشن کا ایک حصہ ہوتے ہیں، مگر کوئی سلیقہ، طریقہ تو ہوتا ہے کہ دل و نظر کو کوئی خوبصورتی تو محسوس ہو۔ اس کے برعکس ایک بدنظمی، ہیجان خیزی اور کرختگی سی نظر آتی ہے۔ ہمارا ذوق حسن اور معنی دونوں سے عاری ہے۔ یومِ آزادی کے اس جشن کے بعد، اس روز کے سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی ہمارے تمام تجدید شدہ وعدے بھی کسی اگلے قومی دن طلوع ہونے کےلیے غروب ہوجاتے ہیں۔
تسلیم کرلیا جائے کہ ملک و قوم کو ترقی یافتہ اقوام کے برابر آنے میں ابھی زمانہ لگے گا مگر ایسے بہت سے امور ہیں جن میں ترقی کےلیے ملک میں سونے، ہیروں کی کانیں اور تیل کے کنویں دریافت ہونے کی ضرورت نہیں۔ جاپان اور سنگاپور کوئی خاص معدنیات نہیں نکالتے۔ ناروے اور سویڈن جیسے ممالک زندگی جمادینے والے موسم میں مبتلا رہتے ہیں۔ سنگاپور تعلیمی اور معاشی لحاظ سے ترقی یافتہ ترین ملک ہے۔ ناروے اور سویڈن مہذب اور فلاحی معاشرے ہیں۔ جاپانی قوم مادّی طور پر ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ مہذب ترین اقوام میں شامل ہے۔ گرچہ ماضی جاپانیوں کا بھی اتنا بے داغ اور سلجھا ہوا نہیں ہے۔
فرد کی طرح اقوام کےلیے بھی ماضی سیکھنے اور سیکھ کر آگے بڑھنے کےلیے ہوتا ہے۔ ماضی کا سبق یاد رکھا جاتا ہے اور واقعات بھلا دیے جاتے ہیں مگر ہم لڑاکا دیورانیوں، جیٹھانیوں کی طرح ایک دوسرے کو ماضی کے طعنے دیتے ہیں۔ واقعات یاد رکھتے ہیں اور سبق بھلا دیتے ہیں۔ اب یہ بھی محض مفروضہ رہ گیا ہے کہ بیرونی آواز یا اقدام کے خلاف ہم یک جاں اور ہم آواز ہوجاتے ہیں۔ عرصے سے ایسے مواقع کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ پہلے یہ خواص کا وطیرہ تھا، سوشل میڈیا کے باعث کچھ عرصے سے عوام بھی اس میں شامل ہوچکی ہے۔
کبھی ان کاموں اور ان شعبوں کی فہرست بنائی جائے جن میں اس معاشرے کو شدید تبدیلی کی ضرورت ہے تو قریباً تمام ہی شعبے اس میں شامل ہوں گے۔ منبر و محراب کے امور سے لے کر کھیل کے میدانوں اور تعلیمی اداروں سے لےکر سیاست کے ایوانوں تک۔ ہم نے ہر شے کے اصلی وجود پر اپنی مرضی کا ایک خول چڑھا رکھا ہے۔ جمہوریت کے اوپر ہماری مرضی کی جمہوریت کا خول، مذہب کے اوپر اپنی منشا کے مذہب کا لبادہ۔ ہمیں ہر شے کے اصلی وجود کی رونمائی کی ضرورت ہے۔
سچ یہ ہے کہ اس قنوطیت پسندی اور قوم یا معاشرے کی برائیاں بیان کرنے سے اکتاہٹ ہوتی ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر یہ عمل تو بیزار کن ہے۔ جب دوسری جانب دیکھیں تو جوش و جنوں گرمانے کو ٹی وی کی سکرینیں پورا دن روشن ہیں۔ جشن جیسا ہم مناتے ہیں اس کا سماں اوپر بیان ہوچکا ہے، تو دل چاہتا ہے کہ کچھ سلیقے، کچھ ذمہ داریوں پر بات ہوجائے۔ اس روز اگر احساسات کچھ بڑھ جاتے ہیں تو کیوں نہ ان کا بہتر استعمال کیا جائے۔
اس ملک سے محبت ہے اور شدت سے ہے۔ اکثر کو اپنے ملک سے محبت ہوتی ہے لیکن اگر عمل اس سے مطابقت نہ کرے تو یہ محبت بوجھ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ بد ذوقی نہ ہو تو مجھے اس قسم کی محبت کےلیے ٹین ایجرز کی محبت کی تمثیل یاد آتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اتنے برسوں میں ہم ملک کو اس قابل بھی نہ بناسکیں کہ ہمارے قابل تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد یہاں سے باہر ہجرت نہ کرتے رہیں۔ بہتر مواقع، فراواں مادی آسائشات و ترقی کا لالچ اپنی جگہ مگر کیا اس میں معاشرتی اور انتظامی رویے کا کوئی کردار نہیں؟ ہمارے لوگ ہر ایک سے وطن کی محبت میں آشفتہ سر ہونے کی توقع کیوں کرتے ہیں۔ جو ان کے پتھر کھاتا رہے اور ان کےلیے کام کرتا رہے۔
تمام لوگ قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خاں، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر عبد القدیر خان نہیں ہوتے۔ معاشرے میں عام لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ ہر شخص کو بہتر مواقع، بہتر سلوک اور بہتر ماحول کی حاجت ہوتی ہے۔ کم از کم جہاں ان کی عزت ہو۔ جیسا کہ ہر شخص تھوڑی کم تنخواہ میں بھی دوسرے کی نسبت اس ادارے میں کام کرنے پر تیار ہوجاتا ہے جہاں عزت زیادہ ملے۔ ہمارے معاشرے میں دولت، طاقت اور سیاسی و سرکاری اثر و رسوخ ہی عزت کا معیار بن چکا ہے۔ لیاقت علی خان کے فرزند کی علاج کےلیے محتاجی کی خبر چند دن قبل کی ہی بات ہے۔ کیا محض دو دن شور مچانے والے، یوم آزادی کے موقع پر اپنے محسن کے وارث کی کوئی چارہ گری کریں گے؟ سوشل میڈیا پر تشہیر کرتے رہنے والی کوئی فلاحی تنظیم، کوئی سرکاری ادارہ، یومِ آزادی پر جذباتی اشتہار جاری کرنے والا کوئی کاروباری ادارہ، صوبائی یا مرکزی ارباب اقتدار میں سے کوئی فرد۔۔۔ یا سمجھ لیجیے ساری، روح سے عاری کھوکھلی محبت ہے۔ وقتی جذباتی ابال ہے۔
آج ہمارے ذائقے، ہمارے ذوق اور معیارات بدل چکے ہیں۔ یہ اوپر نہیں گئے، نیچے ہی آئے ہیں۔ کتب خانے ویران ہیں۔ کتابوں کی جگہ سوشل میڈیا لے چکا ہے اور اس کے استعمال کا سلیقہ ہمیں اب تک نہیں آیا۔ حقیقت ہے کہ معاشرہ علم کی بنا پر ترقی کرتا ہے لیکن یہ علم محض درسی کتابیں نہیں ہوتیں بلکہ معاشرے میں علم اور کتابوں کا عام چلن ہے۔ اگر مسلمان کبھی ترقی یافتہ قوم تھے اور آج یورپ غالب ہے، تو معاشرے میں علم کے عروج اور کتابوں کے رواج کے باعث۔ کبھی بغداد، اندلس اور نیشاپور علم کے مراکز تھے۔ آج مغربی ادارے جدید علم و تحقیق کے پروانوں کی شمعیں ہیں۔ دولت، مادی ترقی اور آسائشات علم کے استعمال کا بائی پراڈکٹ ہے۔ تجربہ رکھنے والوں سے پوچھ لیجیے، علم، تحقیق اور کتابیں مالی اور مادی لحاظ سے ہمارے معاشرے میں گھاٹے کے سودے ہیں۔۔۔ کیوں ہیں؟
اب یہ بھی کہنے کا دل نہیں چاہتا کہ ہم اپنے سفر کے کھوٹا ہونے کے اسباب و عوامل پر غور کریں۔ اس نام پر بھی ہم ایک دوسرے کے گریبان نوچنے لگ جاتے ہیں۔ اسباب کیا ہیں، ذمہ داران کون ہیں، کچھ عرصہ اس کو بھول کر محض ان رویّوں پر غور کیا جائے جو معاشرے اور ملک کی ترقی کےلیے ضروری ہوتے ہیں۔ وہ صِفات اور عادات اپنانے کے جتن کیے جائیں جو کسی بھی قوم کو مہذّب اور ترقی یافتہ بناتی ہیں اور جو انفرادی حثیت میں بھی ہماری زندگیوں کو خوش نما سجا دیتی ہیں۔
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
دیکھنا گنوانا مت دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
یوم آزادی مبارک۔۔۔