Resham Mein Lipti Wehshat
ریشم میں لپٹی وحشت
اگر ریشم میں لپٹی وحشت و حیوانیت دیکھنی ہو تو اسلام آباد میں نور مقدم قتل کیس دیکھ لیجیے۔ بڑے گھروں کی اونچی دیواروں کے پیچھے اور اطلس و کمخواب تلے بھی ایسے المیے رونما ہوتے ہیں کہ انسانی عقل حیراں رہ جاتی ہے اور انساں کا تاریک رخ آنکھوں کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے۔
قدرت جب ہمیں دولت، شہرت، ذہانت، طاقت میں سے کسی شے کے تحفے سے نوازتی ہے تو وہ تحفے کے ساتھ ایک آزمائش بھی ہوتی ہے۔ اس کو برتنے کا سلیقہ سیکھنا پڑتا ہے ورنہ ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی اور وہ نعمت جلد ہی مصیبت بن کر ہمیں کسی گہری گھاٹی میں پھینک دیتی ہے۔
پاگل پن کے کئی اسباب رویوں کے بگاڑ سے پیدا ہوتے ہیں اور ان رویوں میں بگاڑ ایک مناسب ماحول اور مناسب تربیت نہ ہونے کے باعث ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مولانا رومی سے منسوب ایک قول پڑھا، معلوم نہیں کہ ان کا ہے یا نہیں مگر کتنا درست ہے کہ " ہر وہ شے زہر ہے جو حد سے بڑھ جائے". جیسا کہ پہلے لکھا کہ دولت، شہرت، ذہانت ہر شے مصیبت بن جاتی ہے۔
کوئی شی حد سے کیسے بڑھتی ہے؟ جب حد قائم ہی نہ کی گئی ہو۔ جب نفس کو ضبط کے مراحل سے گزارا نہ گیا ہو، بے محابا اور بے مہار آزادی ہو۔ انسان کی فطرت ہے کہ بے لگام آزادی حیوانی جبلتوں کو بیدار کردیتی ہے۔ انسان کی حیوانی جبلتیں انسان کے اندر ہی پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ہم تہذیب، تعلیم کی زنجیریں ڈال کر، اقدار اور تربیت کے ذریعے سَدھا کر ان پر قابو پاتے ہیں۔
ارسطو نے انسان کو معاشرتی حیوان کہا تھا۔ آدمی کو انسان بنانے کےلیے معاشرے میں کچھ اخلاقی اور سماجی اقدار ہوتی ہیں۔ اسے معاشرے میں رہنے کے طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ یہ اقدار تربیت کے ذریعے فرد کو منتقل ہوتی ہیں۔ معاشرہ فرد کی جو تربیت کرتا ہے اسے سماجی تربیت کہتے ہیں۔ گھر، علم عمرانیات جسے خاندان کا ادارہ کہتا ہے اس تربیت کا پہلا ادارہ ہوتا ہے۔ اکثر قاتل، جنونی، مجرم یا ناکام ترین انسانوں کی حیات کا جائزہ لیں تو گھر میں تربیت میں رہ جانے والا خلا نظر آتا ہے۔ دولت کی بے تحاشا فراوانی کا بے لگام آزادی کے ساتھ تعامل وہ مقام ہے جہاں سے ایسی داستانیں جنم لیتی ہیں۔
اگر سر سے فٹبال کھیلنے والے کسی دہشت گرد، انسان کے اعضاء کاٹنے والے ایک ڈاکو اور ایک جدید تعلیم یافتہ، مہذب و متمدن شہری سماج کے باشندے، خوشحال و طاقتور گھرانے کے فرد میں وحشت و بربریت کا یکساں رویہ ہو تو گھر کی سماجی و اخلاقی تربیت، تعلیم اور سماجی ماحول پر سوالات تو اٹھیں گے۔ ایک باشعور ذہن اس میں پائے جانے والے اسباب و عوامل پر غور تو کرے گا کہ آخر خرابی کہاں واقع ہوئی؟
تمام آسائشات کے باوجود ذات میں کون سے خلا رہ جاتے ہیں اور ان خلاؤں سے کون سی مہیب عفریتیں نکل آتی ہیں جو سالم انسان کو نگل لیتی ہیں؟ علم عمرانیات اس میں ہماری کچھ رہنمائی کرتا ہے۔ میں ان سوالوں کے جواب اور اسباب و عوامل کی کھوج و فکر کا کام آپ پر ہی چھوڑتا ہوں۔
سارے علمی قضیے کے بعد بھی اس المیے کی شدت کم نہ ہوگی کہ آخر انسان اس قدر درندگی کیوں اختیار کرلیتا ہے۔ اتنی وحشت کہاں سے آتی ہے۔ یہ سوال نہیں ہے، دکھ ہے۔ مذہب، اخلاقی اقدار، معاشرتی روایات، لطیف انسانی احساسات، ریاستی قوانین کتنے طریقے، کتنے ضابطے، کتنے پہرے ہیں ایک فرد کو معاشرے میں رہنے کے قابل انسان بنانے کےلیے۔ اس کے بعد بھی انسان پستی و بربادی کی طرف ہی کیوں لپکتا ہے؟ گھاٹے کا سودا ہی کیوں کرتا ہے؟
پھر قابیل یاد آتا ہے۔ اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنے والا نسل انسانی کا پہلا سفاک قاتل، انسانی تاریخ کے پہلے عظیم المیے کا موجد۔ ہم پھر اپنے زمانے میں آتے ہیں۔ آدمی کو معاشرے میں سدھانے کےلیے ریاست کے قوانین کا بہت بڑا کردار ہے۔ تہذیب یافتہ ذہن کےلیے قانون کا احترام اور عمومی طور پر قانون کا خوف رہتا ہے۔ یہاں دونوں ہی ندارد ہیں۔
اور کیونکر موجود ہوں گے؟ جہاں بدمعاشی سے کسی فرد کو سربازار برہنہ کرکے ویڈیو بنائی جاسکتی ہو۔ جب سینہ زوری سے ایک جوڑے کے ساتھ اجتماعی بدسلوکی کے دوران اسے کیمرہ بند کیا جاتا رہے اور پھر اسے مشہوری کےلیے سوشل میڈیا پر ڈال دیا جائے۔ جہاں زندہ انسان کے اعضاء قطع کرکے اسے تماشے کی طرح فلمایا جائے۔ جب نوجوان شاہزیب کے قاتل ایک جاگیردار کے فرزند شاہ رخ جتوئی سے جیل میں وی آئی پی سلوک ہو اور مقتول کے ورثاء پر معافی دینے کےلیے دباؤ ڈالا جائے۔ جس ملک میں ریاست کے ایک نمائندے مگر معمولی اہلکار کو ریاست کی ہی سڑک پر خود کو قانون سے بالا سمجھنے والے شخص کی گاڑی کچل دے اور بعد میں اس کی آزادی اسے طاقتور ثابت بھی کردے اور کہیں خود ریاست کے نمائندے، عوام کے محافظ اہلکار دن کی روشنی میں، کیمروں کی آنکھوں کے سامنے کبھی سڑکوں پر، کہیں گاڑیوں میں نہتے، بے گناہ لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کریں۔
جہاں ہر کمزور کے خلاف طاقتور مجرم کے معاملے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قانون طاقتور کے ساتھ کھڑا ہے۔ جہاں ہر بار انصاف کے لیے سوشل میڈیا کی عدالت لگانا اور اس عدالت میں دہائیاں اٹھانا لازمی ٹھہر جائے تو قانون کا خوف قائم ہوگا نہ احترام رہے گا۔ عامی احترام نہ کریں گے اور طاقتور کےلیے بچ نکلنے کی جا موجود ہو تو خوف کی جگہ پیدا نہیں ہوگی۔ البتہ غریب و لاچار کےلیے پولیس، پولیس کی مار، تھانوں اور کچہریوں کا خوف موجود رہے گا۔ ایسے معاشرے میں ہر شخص اپنی بقا کےلیے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے پر انحصار کرتا ہے۔ وہاں طاقت، دولت، وحشت، بے مہار آزادی اور اس سے پیدا ہونے والے عوامل کی متوازی اقدار قائم ہوجاتی ہیں اور اس معاشرے میں بکھری شخصیتیں، خالی روحیں اور منتشر اذہان پروان چڑھتے ہیں۔