Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mumtaz Malik
  4. Kya Khoya Kya Paya?

Kya Khoya Kya Paya?

کیا کھویا کیا پایا؟

عورت کے بدلتے زمانے کے روپ اسے تیزی سے تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ یہ وہی عورت ہے جو ماں ہے تو انسان کی سب سے بڑی ہمدرد اور خیر خواہ کہی جاتی رہی ہے اور اگر بیوی رہی تو اسے لباس کہہ کر اس کی حیثیت کو مکمل بیان کر دیا گیا۔ لیکن پھر حرص و ہوس کی وہ آندھی چلی کہ رشتوں کے پرخچے اڑنا شروع ہو گئے۔

شاید اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں میڈیا اور معلومات کا وہ سونامی ہے جس کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے اور اس سے کوئی فائدہ اٹھانے کے لیئے ہماری قوم کے پاس نہ تعلیم کا ہتھیار تھا، نہ ہی ٹیکنالوجی کی سمجھ، نہ ہی کوئی قومی شعور تھا اور نہ ہی تہذیب و اقدار کی کوئی مضبوط ڈھال۔ سو تنکے کی طرح ہمارا سارا معاشرتی ڈھانچہ بہتا چلا گیا۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارا ہر غرور ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ مرد نے اپنی آنکھ کا پانی اور سوچ کا دائرہ کھو دیا تو عورت نے اپنی حیا اور نسوانی وقار کو اپنے ہاتھوں تار تار کر دیا۔ سر بازار اس کی قیمت لگوا لی۔ کیونکہ آج کے مرد نے اسے یقین دلا دیا کہ عزت کی تلاش میں نکاح کا پٹہ گلے میں ڈالو گی تو تمہیں میرا کتا بن کر رہنا ہوگا اور داشتہ بنکر میرے ساتھ مجھے خوش کرتی رہوگی تو تمہاری سوچ سے بھی پہلے ہر ممکن اور ناممکن تمہارے نام لگاتا رہونگا۔

سو روٹی کپڑا اور ادھار کی چاردیواری پر تکیہ کرنے والی عورت نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے خود کو اس کے قدموں میں گرا کر بیوی بنکر کتے کی سی زندگی گزارنے اور اس کے سارے خاندان کی چاپلوسی کے بدلے اپنے کانوں میں ان کا زہر آلود سیسہ پگھلانے اور سینے میں الاؤ دہکھانے کا۔ کیوں نہ اک گناہ (جو اس مرد کی خوشی کیساتھ) کرکے دنیا بھر کا اختیار اپنے نام کیا جائے؟ اسی سوچ نے اس معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مرد نے اپنی بیوی کو ہر ایک اپنے بیگانے کے سامنے ذلیل کرنے، اس پر جملے کسنے اور اس پر لطیفے بنانے کے لیئے اپنی نکاحی بیوی کو آلہ بنا لیا۔ گویا اپنا لباس اپنے ہاتھوں اتار دیا تو بدلے میں ایک کرائے کا تعلق بخوشی اپنے گلے کا ڈھول بنا لیا۔ جس کے لیئے وہ صرف ایک اے ٹی ایم مشین ہے۔ جہاں اس کے پہنچنے کی دیر ہے فرمائشی ریکارڈ شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں مشین سے نوٹ ختم ہوئے۔

آپ کو پڑی لات اور اس عورت کے لیئے ایک نیا اے ٹی ایم پہلے سے لائن میں موجود ملے گا۔ بلکہ کئی ایک کے ایک وقت میں بیشمار اے ٹی ایم ایکساتھ اپنی خدمات پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرد اپنی نکاحی بیوی کو کیا عورت نہیں سمجھتا؟ کیا اسے انسان نہیں سمجھتا؟ یا اسے اس بات کا خوف لذت دیتا ہے کہ یہ کہاں جائیگی میرے دروازے کے سوا؟ کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ بطور بیوی اس دنیا کی ساری رنگینیاں وہ بھی نہ دیکھتی ہے، نہ جانتی ہے اور نہ ان سب پر اختیار رکھتی ہے؟ کیا اسے یہ گمان ہے کہ اس کے اور اس کے خاندان کے ہاتھوں ذلت اور مقابلہ بازی ہی اس رشتے کا مقدر ہے؟

تو پھر آج کی عورت خود مختار ہو کر خود اپنی دو روٹی، چادر اور چار دیواری بنا کسی ذلت و تماشے کے بنانا چاہتی ہے اور اکیلی اپنی مرضی سے سکون کیساتھ جینا چاہتی ہے، بنا کسی کے جوتے سیدھے کیئے خوش رہنا چاہتی ہے، تو کیا برا کرتی ہے؟ بات دینی پہلو سے ہو یا معاشرتی۔ رشتے تحفظ اور عزت کے لیئے بنائے جاتے ہیں اور اگر یہ دونوں چیزیں ناپید ہو جائیں تو رشتوں خصوصا میاں بیوی کے رشتے کی ضرورت ہی کہاں رہتی ہے؟

ہمارے معاشرے کا مرد خود اس رشتے کو تباہی کے دہانے پر لا چکا ہے۔ بدلے میں اسے کیا ملا۔ نہ دل کا چین، نہ وفا نہ عزت۔ یہ سب وہ چاہتا تو اپنی زندگی کا ٹریک ہی کیوں بدلتا۔ ورنہ نکاح کے بدلے تو اسے یہ سب کچھ خدائی تحفے کے طور پر بنا کسی تردد کے مل ہی رہا تھا۔ جس سے وہ بیزار ہو کر جنگلی پھولوں کی خوشبو سونگھنے کانٹوں کے جھاڑ میں ناک گھسیڑ بیٹھا۔ اور سونگھ کر جب باہر نکلتا ہے تو نہ اس کی ناک کسی قابل رہتی ہے نہ اس کی شکل کسی کو دکھانے لائق رہتی ہے۔

عورت نے بھی اسی کے دکھائے ہوئے تجربات کی روشنی میں یہ جان لیا کہ نکاح جیسا مقدس بندھن آج کے اس پرآشوب دور میں محض دو روٹی اور سر کی عارضی چھت کے لیئے باندھنا ناقابل برداشت اور اس رشتے کیساتھ بے ایمانی ہے۔ (ظاہر ہے چھت تو مرد اپنی داشتاؤں کے نام کرتا ہے اس کے لیئے تو جب تک نکاح تب تک پناہ والا کھاتہ ہی ہوتا ہے، تو چھت اسکی کہاں سے ہوگئی؟) اس لیئے وہ اب ہمارے سو کولڈ پاکستانی اور مشرقی معاشرے میں یہ رشتہ اس قدر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے کہ خود کو معاشی طور پر اس غم سے آزاد کرنے ہی میں عافیت سمجھنے لگی ہے۔

ایمانداری سے دیکھا جائے تو آج کی عورت کو یہ راستہ دکھانے والا ہمارا مشرقی مرد جسے اپنی عیاشی کا سامان سمجھ بیٹھا ہے وہی اسکی تباہی کا انجام بن چکا ہے۔ اپنی نسل اصل اور دین دنیا سب کچھ داؤ پر لگا کر اسے ہوش آیا بھی تو کیا آیا۔ اس کا حل بیحد آسان ہے کہ اپنی داشتاؤں کے بجائے اس لڑکی کو پوری عزت وقار اور تحفظ دے جو نکاح کا مقدس بندھن باندھ کر اسکی زندگی میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر داخل ہوتی ہے۔ اسے اپنے گھر کی نوکرانی بنا کر اپنے خاندان کے قدموں میں ڈالنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کا سکون اور مددگار سمجھے۔

یہ یاد رکھے کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ باز پرس جس رشتے کی ہوگی وہ اس کی بیوی ہی ہے۔ تاکید کی گئی کہ لوگوں اپنی بیویوں کے لیئے تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ معاشرے کو مزید بگاڑ اور تباہی سے بچانا ہے، ہمارے مردوں کو اپنی نسل بچانی ہے تو نکاح کے رشتے کی توقیر بچائیں۔

Check Also

Sulag Raha Hai Mera Shehar, Jal Rahi Hai Hawa

By Muhammad Salahuddin