Khud Tarsi Ki Nobat
خود ترسی کی نوبت
میرے کالم "خود ترسی بھی ایک مرض" پر ہمارے ایک فیس بک فرینڈ کا تبصرہ تھا کہ یہ مرض یورپ کی لڑکیوں میں عام ہے جہاں اکثر مائیں اپنی لڑکیوں کو لے کر سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتیں ہیں اور کہتیں ہیں کہ "اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے"۔
یہ سوچ اور اس جیسی سوچ والے دوستوں کو ایک ہی جواب دینے کی غرض سے قلم اٹھایا ہے یہ آپکی خوش فہمی ہے جناب کہ یہ مرض محض یورپ سے منسوب ہے زرا اپنے گلی محلوں میں اونچے نیچے گھروں میں جھانکیں جہاں بوڑھی ہوتی رشتوں کے انتظار میں بیٹھی لڑکیاں بیوائیں، مطلقہ خواتین جو معاشرے میں دھتکار کر تنہا بے آسرا زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جاتی ییں۔ ان سے پوچھیئے جا کر بے بسی کا احساس کیا ہوتا ہے۔ اور جب کوئی ان کی پریشانی سمجھنے والا ان کے دکھ کو دکھ سمجھنے والا نہیں رہتا تو وہ خود اپنے اوپر ترس کھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یورپ میں نہ شادی مسئلہ ہے نہ طلاق۔ نہ دوستیاں مسئلہ ہیں نہ معاشی مجبوری۔ لگتا ہے یورپ کے بارے میں ایسے لوگوں کی معلومات کافی ناقص ہیں۔ معذرت کیساتھ۔
جی ہاں درست ہے کہ حد سے ذیادہ تنہائی پسندی ہی بعد میں ڈپریشن کی صورت میں سامنے آتی ہے اور یہ تنہائی کبھی کبھی بھرے پرے گھر میں بھی انسان کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ کیونکہ وہاں جسم تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن۔ کسی کی سوچ کو جذبات کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا حتی کہ کبھی کبھی تو اپنے سگے والدین آپکے جذبات کچلنے اور آپکو تماشا بنانے میں فریق بن جاتے ہیں۔
یہ ڈپریشن یا مایوسی بھی ایک دم سے انسان پر حملہ آور نہیں ہوتی بلکہ قدم بقدم بڑھتی اور اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم سب اتنے حساس ہوں کہ اپنے ملنے والوں اردگرد رہنے والوں کی باڈی لینگویج اور طرز عمل میں ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کر سکیں اور برقت ہی کسی انسان کو اس کنویں میں گرنے سے بچا سکیں۔
کسی انسان کا جہاں وجود ہے وہاں اس کا ذہنی طور پر حاضر نہ ہونا، اس کی آنکھوں کا وہاں پر اجنبیت کا اظہار، بات کچھ ہو جواب کچھ اور آ رہا ہو، اپنے لباس اور حرکات و سکنات سے بے خبر ہونا، بلاوجہ ہنسنے لگنا یا خوامخواہ رونے لگنا یا چڑچڑاہٹ کا شکار ہونا، جھگڑا کرنے کا بہانہ ڈھونڈنا، یہ سبھی کیفیات جو بیان کی گئی ہیں وہ ڈپریشن کی ہیں جو خود ترسی سے بہت زیادہ آگے کی یا لاسٹ سٹیج کہہ لیں، کی ہیں۔
جبکہ خود ترسی عموما اس وقت آغاز ہوتی ہے جب بچپن ہی سے بچے کو اس کی صلاحیتوں پر حوصلہ افزائی نہیں ملتی، ایک کا حق دوسرے کی جھولی میں یہ کہہ کر ڈال دیا کہ چلو تمہیں پھر لے دیں گے، ابھی تمہیں اس کی زیادہ ضرورت نہیں ہے، تم اس کا کیا کروگے/گی، اسے اہمیت نہ دینا یا پھر اولاد میں ہر وقت کسی کا، دوسرے کی کسی بھی صلاحیت یا چیز سے غیر ضروری مقابلہ کرتے رہنا، مذہب سے دوری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے، کیونکہ مذہب ہمارے اندر تقدیر اور نصیب کا تصور پختہ کرتا ہے۔
برداشت اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ہمارے اندر صبر اور انتظار کی عادت کو جنم دیتا ہے۔ ہمارے مزاج میں توازن پیدا کرتا ہے۔ جبکہ آجکل بدنصیبی سے جو بھی شخص مذہب کی جانب متوجہ ہوتا ہے اس مذہب کے اکثر علماء اور راہب ہی اسے بھٹکا کر مذید تباہی میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس لیئے رہنمائی کا یہ کردار بہرطور نزدیکی رشتوں کو ہی ادا کرنا ہوگا۔
خود ترسی سے شروع ہونے والا سفر اکثر گناہوں کی منزل یا خودکشی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ لہذا اسے نظر انداز کرنا اس معاشرے میں ٹائم ب م فٹ کرنے کے برابر ہے۔ اپنے معاشرے کو اس سے بچائیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس کا آغاز آپکے اپنے گھر سے ہوگا۔