1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Zeashan Butt/
  4. Ustad Ke Ehteram Mein Kami?

Ustad Ke Ehteram Mein Kami?

استاد کے احترام میں کمی؟

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

ایسا شخص جو کسی کو علم سکھائے۔ تعلیم دے اور علم کی بدولت اس کی زندگی میں ایسی تبدیلی لائے کہ دوسرے اس پر رشک کرے استاد کہلاتا ہے۔

انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی بنیادی وجہ "علم" ہے جو اسے تمام مخلوقات سے منفرد اور افضل بناتا ہے، وہ علم جو اللہ رب العزت کی جانب سے اس کو ودیعت کیا گیا ہے اس کے بعد دنیا میں"علم" کے حصول و ترقی کا ذریعہ والدین کے بعد ہمارے "استاد" یا "معلم" بنتے ہیں جواپنی بہترین تربیت کے ذریعے ہمیں ایک کارآمد انسان بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں

حکیم حافظ طلحہ صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ استاد نہیں کہتا کہ یہ میرا شاگرد ہے۔ شاگرد خود فخر سے اپنا تعارف کرواتا ہے کہ میں فلاں شخص کا شاگرد ہوں۔

حال ہی میں عالمی یوم اساتذہ گزرا ہے پانچ اکتوبر کو ہم یہ دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ اساتذہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ہیں یا جیسے ممکن ہو اپنے اساتذہ کی تکریم کرتے ہیں اساتذہ معاشرے کا اہم حصہ ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں استاد جہالت کو ختم کرکے علم کی روشنی کو ہر طرف پھیلاتے ہیں اور جو عمل ہمارے اندر نظر آتا ہے وہ ہمارے اساتذہ کا ہی دیا ہوا ہوتا ہے۔

پانچ اکتوبر کو اس دفعہ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہی سوال جو ہر دفعہ ہم سے پوچھا جاتا ہے اور اس اینکر نے بھی یہی پوچھا کہ کیا آج کے دور میں استاد کی عزت کم نہیں ہوگی؟ میرا جواب سن کے انداز وہی تھا جو عام طور پہ لوگوں کا ہوتا ہے کیونکہ میں ان سے بالکل بھی اتفاق نہیں کیا۔ اساتذہ کی عزت میں کبھی بھی کمی نہیں ہو سکتی ہے یا کسی معاشرے میں کی جا سکتی ہے۔

بہرحال وہ اس بات پہ متفق تھی کہ استاد کمرشلزم کی طرف زیادہ اگئے ہیں جیسا کہ پورے ملک میں ہی مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور ہر طرف بنیادی ضروریات پوری کرنے کی ایک جنگ سی لگی ہوئی ہے۔ بجلی کا بل جمع کروانا بالکل ایسے ہے جیسے انڈیا سے میچ جیتنا۔ اہل علم اس بات سے متفق ہیں کہ اپنے مقام تک پہنچنے کے لیے تگ و دو کرنی پڑتی ہے اگر ایک شیف ہے مشہور ایسے نہیں بنا لوگ اس کے کھانے کے ذائقے کی تعریف کرتے ہیں دور دور سے اس کے پاس آتے ہیں اسی طرح بہترین درزی ہے اس کے کام کی شہرت ایسے ہی طول و عرض تک نہیں پھیلی بابر اعظم کا جادو ایسے ہی ہر ایک کہ سر پر چڑھ کے نہیں بولتا۔

اسی طرح کسی بھی شعبے میں کوئی شخص کمال حاصل کرتا ہے اس نے اپنی دن رات اس شہرت تک پہنچنے کے لیے محنت کی۔ اگر اپ یہ کہتے ہیں کہ یہ مقام استاد کو حاصل ہو کہ اس کے سامنے اس کے طالب علم سر جھکائیں، اس کی بات کو مانے اور وہ بغیر تگ و دو کے مل جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے یہ مقام حاصل کرنے کے لیے استاد کو بھی محنت کرنی پڑے گی۔ اپنے اندر خلوص پیدا کرنا پڑے گا، اپنے بچوں سے لگاؤ پیدا کرنے پڑے گا جس کی بہت کمی ہے ہر دور میں دو طرح کے اساتذہ ہوتے ہیں ڈیوٹی ٹیچر اور مخلص ٹیچر۔

مخلص استاد کی عزت کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے 17 سال پہلے جب میں نے اس شعبے کو چنا تو میرے دوستوں نے بھی مجھ سے یہی کہا کہ اب طالب علم عزت نہیں کرتے لیکن الحمدللہ سترہ سال زندگی کے اسی شعبے میں گزر گئے ہیں آج تک کوئی ایک بھی شاگرد ایسا نہیں کہ جو بدتمیزی کرے یا بات سے متفق نہ ہوں۔ اس میں میری اپنی کوئی خوبی نہیں میرے اساتذہ نے میری ٹریننگ ہی ایسی کی تھی کہ اپ اپنے کام کے ساتھ مخلص ہو، اپنے بچوں کے ساتھ مخلص ہو، اللہ کی ذات عزت دینے والی ہے عزت انسان کے پاس نہیں ہوتی اس لیے۔

بچہ اگر اپ سے سے یقین حاصل کر لے کہ وہ کر سکتا ہے اور یہ یقین صرف ایک استاد ہی پیدا کر سکتا ہے لیکن یہ یقین پیدا کرنے کے لیے خود استاد کا پر اعتماد ہونا بھی ضروری ہے۔ اپنے مضمون پہ اس کو عبور حاصل ہونا بھی ضروری ہے جو کہ آج کل کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن زیادہ تر اساتذہ اس بات کی اہمیت سے اگاہ نہیں بغیر تیاری کے جب اپ اپنے مضمون کے لیے پڑھانے جائیں گے تو پھر اپ کو وہ رد عمل، رسپانس اور وہ محبت نہیں ملے گی۔ اسی طرح اگر آپ ذاتی پریشانیوں کو اپنی کلاس میں لے جاتے ہیں تو بھی کامیاب نہیں ہو پائی گے۔

ہمارے استاد محترم کہا کرتے تھے کہ استاد کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، نہ کوئی اس کا فرقہ ہوتا ہے نہ وہ کسی قسم کی تفریق کرتا ہے اس کے لیے تمام طالب علم برابر ہوتے ہیں۔ کلاس میں جانے سے پہلے وہ علی، عظمت، ریحان تو ہو سکتا ہے لیکن کلاس میں داخل ہوتے وقت وہ استاد ہوتا ہے، بچوں کا محسن ہوتا ہے اور وہ ان کے اوپر شفیق ہوتا ہے اگر آپ یہ کمال حاصل کر لیں کہ اپنی پریشانی کو باہر رکھ کر کلاس کے اندر جائیں گے وہ عزت اور مقام پائیں گے جو اپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ اگر اج اساتذہ میں عزت و اکرام کم پایا جاتا ہے۔

اس کی وجہ استاد کی عملی کمی ہے وقت کی پابندی، مستقل مزاجی، والدین کا اکرام، ایمانداری، نماز سچائی جیسے موضوعات پر اکثر اساتذہ اپنے بچوں کو تلقین کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں کمی سے شاگرد متاثر نہیں ہوتے وہ ان کی دل سے عزت نہیں کرتے، بچوں کو احساس دلائیں کہ آپ ان کے رہبر، رہنما اور گائیڈ ہیں اپنی زندگی کا کوئی بھی مسئلہ ٹیکسٹ بک کے علاوہ بھی آپ کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں تبھی استاد کو چاہیے کہ کلاس میں پرجوش داخل ہوں ہو اور بچوں کے ساتھ شفقت کریں اپنے شاگردوں کے بارے میں معلومات رکھے اگر کوئی بچہ بیمار ہو یا اس کے گھر میں کوئی پریشانی ہے اس کے لیے دعا کروا دیں اورعیادت کریں، تعزیت کرے، والدین سے رابطے میں رہیں۔

بچے آپس میں ناراض ہو تو صلح کروائں، مثبت، تعمیری سرگرمیاں کروائیں، تب ہی ایک مثالی استاد بن سکیں گے اور عزت و اکرام حاصل کر سکیں گے تھوڑا نہیں مکمل غور کیجے۔۔

Check Also

Gustakhi Ki Talash Aur Hum

By Qasim Asif Jami