Siasi Chilla
سیاسی چلہ
پاکستانی سیاست انتقام کے اس نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ اب کچھ بھی بعید نہیں۔ عمران خان کے ایک سال پہلے کیے گئے دعوے حقیقت ثابت ہو چکے ہیں کہ نواز شریف کو واپس اقتدار میں لایا جائے گا اور ہم سے انتقامی کاروائیاں اپنے عروج پہ ہوں گی ایک طرف میاں صاحب کی اقتدار تک واپسی اب طے ہے اور دوسری طرف انٹرویو اور پریس کانفرنس کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ایک کے بعد ایک عمران خان کے ساتھیوں کے انٹرویو یا پریس کانفرنس کروا کر ان سے علیحدگی کا اعلان کروایا جاتا ہے اور الزامات کی بوچھاڑ کروائی جاتی ہے۔ جس سے عمران خان کی مقبولیت دن بدن بڑھتی ہوئی جا رہی ہے۔
کسی سمجھدار شخص نے بڑی زبردست بات کی کہ میاں صاحب اگر مینار پاکستان کا گراؤنڈ آپ سے نہیں بھر پا رہا تو صرف یہ اعلان کر دیں کہ وہاں عمران خان آ رہا ہے پھر دیکھیے گا تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں بچے گی اعلان کر دیں آپ تو ویسے بھی جھوٹ بولنے میں کمال رکھتے ہیں حالیہ انٹرویو کی باری اس بار دبنگ، بزرگ سیاستدان پنڈی بوائے شیخ رشید کی تھی جو پچھلے کچھ عرصے سے اداروں کی تحویل میں تھے۔
انٹرویو کے بارے میں مختلف رائے ہیں کہا جاتا ہے کہ دو دفعہ یہ انٹرویو ریکارڈ کیا گیا پہلی دفعہ سما کے سٹوڈیو میں لیکن وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ چلایا جا سکتا ہے پھر دوبارہ ایک گھر میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ شیخ رشید کا گھر ہے یا کہ راولپنڈی میں ایک مشہور بیکری کے مالک کا گھر ہے۔ کہتے ہیں نا کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ہر چیز کو ہرایا جا سکتا ہے مگر تجربہ کبھی نہیں ہارتا۔ اس انٹرویو میں بھی واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ شیخ رشید نے اپنے تجربے کی بنیاد پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا اور ان کو ایک اور ناکامی ہوئی۔
اب شیخ رشید کی سیاست سے بے شک متفق نہ ہوں لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ دبنگ سیاستدان فل بدی بولنے کا ملکہ رکھتے ہیں، ٹیوٹر پہ مقبول ترین سیاست دانوں میں سے ایک ہیں ٹی وی انٹرویو میں سب سے زیادہ ان کی ریٹنگ ہوتی ہے انڑویو دیکھ کر وہ محورہ یاد اگیا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ صحافی نے پوچھا یا یہ کہیں کہ لفافہ صحافی نے یہ پوچھا کہ شیخ صاحب کہاں تھے آپ شیخ صاحب نے کہا میں چلا کاٹنے گیا ہوا تھا یہ پہلے ہی طنز تھا جو شیخ صاحب نے چلایا اور سیدھا جا کے لگا اینکر نے کہا کہ آپ کو لگتا ہے میں اپ کی باتوں کو مان لوں گا۔
شیخ صاحب نے کمال جواب دیا کہ مجھے پتہ ہے آپ مانیں گے تو نہیں میری خاطر مان جائیں چونکہ باڈی لینگویج کے ایکسپرٹ ہیں یہ بات جانتے ہیں کہ الفاظ سے زیادہ آپ کا اعتماد بتاتا ہے کہ آپ کہاں سے بول رہے ہیں تو جان بوجھ کے اپنی باڈی لینگویج کو اتنا ڈھیلا رکھا تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ ایک پلانٹڈ انٹرویو تھا۔ دوسرا پتہ جو شیخ رشید کا نشان پہ جا کے لگا وہ یہ کہ کاغذ سے دیکھ کر پڑھنا تاکہ پتہ لگ سکے کہ یہ زبردستی کا انٹرویو ہے پھر یہ کہ عمران خان کے ساتھیوں کا نام لیا لیکن براہ راست الزامات عمران خان پہ نہیں لگائے جیسا کہ دوسرے انٹرویو سے پریس کانفرنس میں کیے جاتے ہیں۔
نو مئی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نو مئی کی مذمت تو اب اتنی ہونی چاہیے کہ ہر جمعہ میں شامل کر دی جائے یہ بھی ایک سیاسی تیر تھا تاکہ پتہ چل سکے کہ اس کے علاؤہ تو کوئی کام ہے ہی نہیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ہمیشہ طاقت ور حلقوں کے قریب رہنے والے شیخ صاحب نے عمران خان کا جتنا ساتھ دیا ان کے باقی اپنے ساتھی بھی نہیں دے سکے حالانکہ وہ اس پارٹی میں شامل نہیں تھے اس لیے ان سے یہ اعلان تو نہیں کروایا جا سکتا کہ میں عمران خان کی پارٹی سے الگ ہو رہا ہوں۔
شیخ رشید نے کہا کہ میں اپنی سیاست کروں گا اور اپنے عمران خان کے ووٹ بینک کو بھی بہت حد تک بچایا شیخ رشید کے علاوہ جس جس نے بھی انٹرویو دیا عوام نے اس کو کڑے ہاتھوں لیا لیکن اگر آپ کل سے سوشل میڈیا پر دیکھیں تو لوگوں کی شیخ رشید کے ساتھ ہمدردی ہے اور لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ شیخ صاحب نے وفاداری نبھائی ہاں فائنل میں آکے وہ ضرور آؤٹ ہو گئے لیکن جہاں تک مقابلہ کر سکتے تھے بھرپور کیا۔ 70 سال سے زیادہ عمر کا شخص اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے یہ بھی کہا میں سب کی معافی کے لیے کہوں گا کہ اب اس کو معاملے کو ختم کر دیں اور عام معافی کا اعلان کر دیں جبکہ باقی پی ٹی آئی کے لوگ تو براہ راست عمران خان کی ذات پر الزامات لگاتے رہے۔
یہ شیخ صاحب کے مدبر سیاستدان ہونے کی نشانی اور ایک اپنے وسیع سیاسی تجربے کا استعمال کیا اور شیخ صاحب کل بھی سیاست میں زندہ تھے اور آج بھی ہیں اور آگے بھی رہیں گے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے متبادل کا نہ ہونا راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے پاس بھی کوئی بھی متبادل ایسا شخص نہیں جو شیخ رشید کی جگہ کھڑا کیا جا سکے۔ اگر راولپنڈی سیاست کی بات کی جائے تو ایک بھی ایسا نامور سیاستدان نہیں جو شیخ رشید کے مقابلے میں الیکشن لڑ سکے کیونکہ حنیف عباسی کو عدالت نے تو بری ضرور کر دیا ہے لیکن اب انہیں عوام کی عدالت میں پیش ہونا ہے کہ نواز شریف کو جو ریلیف مل رہا ہے اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالت نے حنیف عباسی کو بھی آزاد تو کر دیا لیکن عملی سیاست میں واپس آنے کے لے انہیں شیخ رشید کو ہی ہرانا پڑے گا۔
حنیف عباسی اور شیخ رشید مقابلہ سخت ضرور ہوگا لیکن شیخ رشید کو ہرانا ناک و چنے چبانے کے برابر ہوگا ایک مضبوط آواز کے طور پر وہ کل بھی مقبول تھے اور آج تو مجبور تھے شیخ صاحب آپ کی جرات اور بہادری کو سلام۔