Khushi
خوشی
روبن شرما کی کتاب سے ہمارے آپ کے ہر دل عزیز شاہ جی (قاسم علی شاہ) خوش رہنے کے سات طریقے بیان کرتے ہیں۔ جس میں سے ہمارا آج کا موضوع ہے سفر کرنا۔ یہ آپ کی خوشی کی مقدار اور معیار کو بڑھا دے گا۔ شاہ جی کہتے ہیں کہ آپ اپنے روزانہ خوشی کے لیول کی اوسط کو دیکھیں، اس کو کم از کم 51 فیصد پہ ہونا چاہیے تو آپ خوش ہیں اور زیادہ آپ جتنے حاصل کر لیں۔ آپ کا خوشی کا پیمانہ سو فیصد ہے تو یہ خالق کائنات کی عظیم نعمتوں میں سے ہے اور آپ ہر وقت ہنستے مسکراتے ہوئے نظر آئیں گے۔
اس معیار کو بڑھانے کے ان سات طریقوں میں ہمارا آج کا موضوع ہے کہ آپ اللہ پاک کی زمین میں سیر کریں۔ آپ اس کی کاریگری کو دیکھیں گے، آپ کے ذہنی دباؤ میں کمی آۓ گی اور دوسری طرف آپ کا خوشی کا معیار بڑھے گا۔ آپ اپنی روزمرہ کی زندگی کی مشکلات کو مکمل طور پر بھول جائیں گے۔ بقول واصف علی واصف صاحب کہ ایک کھانا پیٹ کے لیے ہوتا ہے اور ایک کھانا آنکھوں کا ہوتا ہے وہ ہے سفر یا سیر کرنا ہے۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ سفر کرنے کے دوران آپ کے سیھکنے کی صلاحیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ایک ہی علاقے میں پیدا ہوئے اور ایک طویل عمر اسی علاقے میں گزار کر چلے جاتے ہیں ان سے منسلک لوگوں سے رائے طلب کر کے دیکھیں اس طرح کہ لوگ اکثر نہ خوش پائے جاتے ہیں۔ سفر نہ کرنے والوں جن میں ایک عرصے تک میں بھی شامل تھا کہ بہانے بھی بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔
1۔ میری سفر میں طبعیت خراب ہوتی ہے بھائی، جب 2 پراٹھے 3 انڈے بڑا کپ چائے کا پی کے آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں گے تو طبعیت بچاری نے تو خراب ہونا ہی ہے۔ اور آج کل کے جدید سائنسی دور میں یہ ایک غیر معقول بہانا ہی ہے۔
2۔ کوئی ساتھی نہیں سفر کرنے کے لے یہ بھی ایک نہ ماننے والی دلیل ہے۔ آپ اکثر سنتے ہیں کہ کسی نے سائیکل، موٹر سائیکل، ہوائی جہاز پر دنیا کا اکیلے ہی چکر لگایا۔ ایک ڈرامے کا جملہ یاد آ گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے وہ ایسے لوگوں کو بہت اعلیٰ جواب دیتا ہے کہ میرے ساتھ بھی میں ہی ہوں۔
اگر آپ کے ساتھ کوئی نہیں تو آپ منصوبہ بنائیں۔ 20، 25 دوستوں کو سنائیں 5، 6 ضرور تیار ہو جائیں گے اور جا کے خوب مستی مذاق کریں اپنی روزانہ کے معمولات سے جان چھڑائیں۔ یقین مانیے آپ صرف سفرنامے پڑھ کر اتنے محظوظ ہو جاہیں گے کہ اپنی اکتانے والی زندگی کو کچھ دیر کے لیے بھول جائیں گے تو خود کے سفر کے تو کیا کہنے۔
بقول بابائے سفرنامہ نگاری مستنصر حسین تارڑ صاحب المعروف چاچا جی اصل مزا راستے اور اس کی پیچیدگیاں ہیں منزل کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ بات میں نے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بھی کی ہے کہ گزشتہ ایک سفر میں دو دوست سارا دن صرف اس لیے ناراض رہے کہ اچانک طے پروگرام میں تبدیلی کیوں کی گئی ان کے طرز عمل سے محسوس کیا کہ انھوں نے ایک جگہ اور خاص حالات کا پہلے سے ذہن بنایا ہوا تھا اور وہ صورت حال میسر نہ آنے پر حالانکہ اس سے بہتر کو بھی قبول نہ کیا۔
امیر صاحب (فہیم بھائی) کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی کیونکہ وہ مزکورہ بالا چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اور سفر سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران آغاز میں ہی بہت شدید چوٹ لگی جس کا اثر دو مہینے تک رہ کہ بھی اس وقت پرواہ تک نہ کی کہ اس طرح کے تفریح کے مواقع کم ہی میسر ہوتے ہیں۔ میرا سب سے یادگار سفر ناران کا ہے آپ کا؟
لطف اندوز ہونے کے علاوہ سیکھا بھی بہت تھا۔
نتیجہ آپ نے خود اخذ کرنا ہے
خوشی کا موضوع جاری رہے گا۔