Khadim Hussain Rizvi
خادم حسین رضوی
بادشاہوں نے ہمیں جھک کے سلامی دی ہے
کیوں کہ ہم نے محمد عربی کی غلامی کی ہے
خلقت خدا نے پہلے جنازے کے مناظر بھی دیکھے اب حالیہ عرس کی تقریبات بھی جو لاہور میں تین دن جاری رہی لاکھ نہیں لاکھوں افراد شریک تھے۔ کیوں آخر کیوں؟ نہ وہ کبھی حکمران رہا، نہ اُس کے پاس دولت کے ڈھیر تھے، پندرہ ہزار روپے ماہوار تنخواہ کا روادار، محض ڈیڑھ مرلے کے مکان میں رہنے والا، نہ سیاست دان تھا، نہ دولت کا پجاری، مختصر یہ کہ کچھ بھی نہ تھا مگر وہ حضورﷺ کا غلام تو تھا۔ تاریخ گواہ جس نے بھی اِس غلامی کو دل سے اپنایا ہے رب نے اُس کی شان بڑھایا ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی ایک ایسا نام ہے جو پاکستان کی دینی و سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ان کی زندگی، فکر، اور جدوجہد نے پاکستانی عوام خصوصاً اہلِ ایمان کے دلوں میں ایک ایسا اثر چھوڑا ہے جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اپنی وفات کے بعد بھی ایک نظریے، ایک تحریک اور ایک ولولہ بن کر آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
خادم حسین رضوی اس لیے مشہور نہیں ہوئے کہ وہ ایک بڑی سرکاری مسجد کے خطیب تھے یا بہت بڑے عالم دین تھے یا عربی گرامر پر عبور تھا یا اقبال کی شاعری کے حافظ تھے ایسے تو بےشمار لوگ آپ کو ہمارے معاشرے میں مل جائیں گے بلکہ وہ ایک مضبوط عقیدے کے حامل شخص تھے انہوں نے ہمیشہ حب رسول ﷺ کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ ان کی تقاریر، اندازِ گفتگو اور اندازِ قیادت میں حب رسول ﷺ کا جذبہ جھلکتا تھا۔ ان کا ہر عمل اور ہر قدم اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ سے بےپناہ محبت کرتے تھے اور ان کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔
خادم حسین رضوی نے 2015 میں تحریکِ لبیک پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کا مقصد اسلام کے احکامات کو معاشرے میں نافذ کرنا اور ختمِ نبوت کے عقیدے کا تحفظ تھا۔ خادم حسین رضوی نے اپنی جماعت کو ایسے وقت میں متحرک کیا جب دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا تھا۔ انہوں نے اپنے کارکنان کو سکھایا کہ عشقِ رسول ﷺ کا مطلب صرف زبان سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ عملی طور پر دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔
خادم حسین رضوی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ناموسِ رسالت ﷺ کے دفاع میں گزارا۔ ان کی سب سے نمایاں جدوجہد 2017 کا فیض آباد دھرنا تھا، جس میں انہوں نے ختمِ نبوت ﷺ کے قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے خلاف آواز بلند کی۔ اس دھرنے نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم اپنے نبی ﷺ کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
خادم حسین رضوی کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی بے لوث قیادت تھی۔ انہوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ان کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کی رہنمائی کی۔ وہ عوام کے جذبات کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ ان کو عملی شکل میں ڈھالنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ ان کی خطابت، بے خوفی اور دینی علم نے انہیں عوام کا محبوب رہنما بنا دیا۔
نومبر 2020 میں خادم حسین رضوی کا انتقال ہوا، لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی جماعت، نظریات، اور جدوجہد کو جھٹکا لگا۔ ان کے بیٹے حافظ سعد حسین رضوی کو ان کے کٹر مریدوں نے امیر بنا دیا جو خود کم عمر ناتجربہ کار ہیں اور تحریکِ لبیک پاکستان کو ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس جماعت کو منظم کر سکیں اور اس جماعت سے شدت پسندی کا عنصر کو کم کر سکییں اور نو جوانوں کی طاقت کو سمت دے سکیں تاکہ یہ نوجوان قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور حضور پاک ﷺ کے سچے پکے غلام بن کر خادم حسین صاحب کے نقش قدم پر چل کر اچھے باعمل مسلمان اور پاکستانی شہری بن سکیں۔
خادم حسین رضوی کی قیادت میں تحریکِ لبیک نے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد بھی، یہ جماعت پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ تحریکِ لبیک کے کارکنان اور حامی آج بھی ان کے مشن کو زندہ رکھنے کے لیے سرگرم ہیں۔ یہ جماعت پاکستانی عوام کے مذہبی جذبات کی عکاس ہے اور اس کی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی ہے۔
خادم حسین رضوی نے نہ صرف ایک جماعت قائم کی بلکہ ایک ایسی سوچ اور نظریہ بھی چھوڑا جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کی تعلیمات، تقاریر اور جدوجہد آج بھی لوگوں کو عمل، قربانی، اور دین کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان کی زندگی اس بات کا عملی نمونہ ہے کہ جب ایک انسان اپنے عقیدے پر مضبوط ہو اور حق کے لیے کھڑا ہو، تو وہ دنیا میں لازوال مقام حاصل کر سکتا ہے۔
خادم حسین رضوی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں کیونکہ ان کی جدوجہد صرف ان کی ذات تک محدود نہیں تھی بلکہ ایک اجتماعی شعور کا حصہ تھی۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو حب رسول ﷺ کے جذبے سے سرشار کیا اور ان کو اس بات کا یقین دلایا کہ دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے ہر قربانی دی جا سکتی ہے۔ ان کا نام، کام اور کردار ہمیشہ ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان کے الفاظ اور عمل آج بھی ان لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو دین کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔
خادم حسین رضوی کا نام ایک تحریک، ایک ولولہ اور ایک نظریہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔