Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Ditte Mein Se Dena

Ditte Mein Se Dena

دتے میں سے دینا

میرے روحانی استاد اشفاق احمد صاحب اپنے مشہور و معروف پروگرام زاویہ جو کہ ہمارے بچپن کی بہت خوبصورت یاد ہے اس پروگرام کو مسلسل دیکھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ والد صاحب ایک زیرک انسان ہیں وہ بچپن میں ہی بیٹے کی صلاحیتوں سے واقف تھے ہر ہفتے میرے ساتھ بیٹھ کے پروگرام دیکھنا اور اس کے بعد پوچھنا کہ اس میں سے آپ کو کیا سمجھ آیا۔

چھوٹی عمر تھی اس وقت تو چیزیں کم ہی سمجھ آتی تھی بہرحال ایک تسلسل سے باتیں دماغ میں پڑھتی رہی لیکن دل اور دماغ اس بات کو اس وقت بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ کوئی صاحب علم ہے اور بڑی قیمتی گفتگو ہو رہی ہے۔ خوش قسمتی اشفاق صاحب کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اس حقیقت تسلیم کرتا ہوں کہ جو دو چار لفظ میں لکھتا ہوں یہ اشفاق صاحب سے اس روحانی تعلق کی برکت کا نتیجہ ہے زاویہ پروگرام میں ہی اشفاق صاحب اپنے ایک دوست ابن انشاء کا ذکر کرتے ہیں کہ جو کہ ان سے بہت تنگ پڑتے تھے کہ اشفاق احمد صاحب کیوں بزرگوں کے ڈیروں پہ وقت گزارتے ہیں جبکہ ان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم سیکھنا چاہیے۔

اشفاق صاحب سے ملنے سے ان کو گھر نہ پایا تو سیدھے اور اسی ڈیرے پہ آئے جہاں اشفاق صاحب بابا جی کے پاس ہوتے تھے اور انہوں نے غصے سے ان کو باہر بلایا اور پوچھا کہ کیا وقت ضائع کرتے یہاں سے کیا سیکھتے ہو؟ اشفاق صاحب نے گزشتہ دن کا واقعہ پیش کیا جس میں وہ اور بابا جی رکشے سے آئے اور رکشے والے کے ساڑھے تین روپے بل بنا تو اشفاق صاحب نے چار روپے دے دیے۔ بابا جی نے ان سے کہا کہ رکشے والے کو کتنے پیسے دے ہیں؟ انہوں نے ذرا فخریہ لہجے میں کہا کے ساڑھے تین بنتے ہیں میں نے چار روپے دے ہیں بابا جی نے کہا کہ پانچ دے دیتے اشفاق صاحب نے پوچھا کہ پانچ کیو ں دیتا؟ بابا جی نے کمال جواب دیا پوتر تو وی دیتے چوں دینے سن یعنی کہ دیے میں سے دینا تھا۔

یہ بات ابن انشاء نے سنی اور ملاقات کرکے وہ واپس چلے گئے کچھ عرصہ بعد کراچی میں اشفاق صاحب ان کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک خاتون آئی اور اس نے خاموشی سے خط ابن انشاء کو دیا ابن انشا نے خط پڑھا اور اپنے دراز سے 300 روپے نکال کے اس عورت کو دے دیے وہ چلی گئی اشفاق صاحب نے پوچھا یہ ایک عورت کون تھی تو ابن انشا نے لاعلمی کا اظہار کیا پھر 300 روپے کیوں دیے۔ ابن انشا نے خط اشفاق صاحب کو دیا جس میں لکھا تھا کہ میں غریب ٹیچر ہوں اور میں کرایہ نہیں دے پا رہی ہوں آپ مجھے 160 روپے دے دیں میری مدد ہو جائے گی میں آہستہ آہستہ آپ کو واپس کر دوں گی۔ میں یہاں کسی کو جانتی نہیں ہوں۔ تو اشفاق صاحب نے کہا کہ ابن انشاء اس نے تم سے 160 مانگے تھے تم نے اس کو پھر 300 کیوں دیے حالانکہ تم تو اس کو جانتے بھی نہیں تھے۔

انشاء نے بھی وہی جملہ دہرا دیا کہ میں نے بھی دتے میں سے دیے ہیں میں نے کون سا اپنے پاس سے دیے ہیں اور یہ رقم تو مجھے کالم لکھنے پہ ملی تھی، کالم تو میں شوق سے لکھتا تھا ویسے ہی بے مقصد پڑے ہوئے تھے چلو اس کے کام آگئے۔ بات آئی گئی ہوگی بہت عرصہ گزرا تو ابن انشاء ایک دفعہ پھر اشفاق صاحب کے گھر لڑنے کے لیے پہنچ گئے کہ یار تم نے مجھے کس مصیبت میں ڈال دیا اشفاق صاحب نے حیرانی کا اظہار کیا۔ تم نے مجھے یہ کس دیتے ہوئے میں سے دینے کے چکر میں لگا دیا۔ میرے پاس پیسوں کی اتنی ریل پیل ہوگئی ہے مجھے سمجھ ہی نہیں آتا میں کہاں خرچ کروں اب تو میرے سامنے کوئی روئے پٹے تو بھی میں کسی کو نہیں دوں گا۔

وہ پچھلے دیے ہوئے واپس آئے جا رہے ہیں، سنبھالنے نہیں ہو رہے کبھی ٹوکیوں سے ایک ہزار ڈالر مل جاتے ہیں تو کبھی یو این او سے، کبھی کہاں سے پیسے آ جاتے ہیں مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کون دے رہا ہے میں اس دیتے ہوئے میں سے دینے کہ فارمولے سے تنگ آ گیا ہوں اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ اب مجھے وہ بات سمجھ آئی جو اس وقت بابا جی نے مجھے سمجھائی تھی تو میں نہیں سمجھ سکا تھا آخر دیے میں سے دینے سے رقم کم نہیں ہوتی بلکہ رقم بڑھتی ہے۔

ہمارے نبی اکرم ﷺ نے یہی ہمیں فرمایا کہ اللہ بہت غیرت مند ہے جب آپ صدقہ دیتے ہیں تو اللہ مال رکھتا نہیں ہے وہ بڑھا چڑھا کر آپ کو واپس کرتا ہے لیکن آج کی نوجوان نسل اس بات کی قائل نظر نہیں آتی یا اس بات میں شکوک و شبہات کی قائل ہے کیونکہ ان کا مساجد علماء اور اہل حق سے فاصلہ بہت زیادہ بڑھتا جا رہا ہے اور اہل حق کی کمی بھی ہوتی جا رہی ہے۔ کتاب تو ہم نے بقدر پڑھ لی ہیں لیکن جو حقیقی علم حاصل کرنا تھا وہ نہیں کر سکے۔ ہم اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں، دورنگی کا شکار ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے اسلاف کی طرف واپس جانا پڑے گا اور ہمیں اپنے والدین کے ساتھ قربت حاصل کرکے اپنے آباؤ اجداد کے طریقے کو اپنا کر دتے میں سے دینا ہے تو انشاءاللہ ہمارا واپس آئے گا۔

دینے کے لے ضروری نہیں کہ آپ پیسے ہی ہوں تو خرچ کریں گے۔ آپ پیار، اخلاق محبت، عزت اور مشورہ بھی دیے سکتے ہیں اور کچھ نہ ہو دینے کے لیے تو ہم کم از کم دعا ہی کردیا کریں۔ بہرحال تجربہ ہمیشہ کی طرح شرط ہے۔

Check Also

Who Are You

By Toqeer Bhumla