Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Zeashan Butt/
  4. Bachon Ki Zimmedar Sirf Maa?

Bachon Ki Zimmedar Sirf Maa?

بچوں کی ذمہ دار صرف ماں؟

گزرے وقتوں کی بات ہے کہ ایک کام کاج سے تھکا ہارا کمیار گھر آیا تو اس کے بچے آپس میں لڑ رہے تھے تو اسے بہت غصہ آیا۔ اس نے بچوں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی، پر بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ انہوں نے باپ کی بات سنی ان سنی کر دی۔ اس نے بچوں کو سزا دی اور اپنی بھڑاس یہ کہہ کہ نکالنے لگا کہ ماں کے دودھ کا اثر ہے۔ جیسی ماں ویسے بچے کمیارن کو غصہ تو بہت آیا لیکن اس نے بہت تحمل سے کہا صرف ماں کے دودھ ہی نہیں بلکہ، باپ کے تخم اور مزاج کا بھی اثر ہوتا ہے۔

کمیار چونکہ پہلے ہی غصے میں تھا جیسے عام ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے اس نے بچوں کو چھوڑ کر اپنی عورت سے لڑنا شروع کر دیا۔ اتفاقاً ملکہ بھی شام کی سیر کے دوران وہاں سے گزر رہی تھی۔ ان کی آوازیں اتنی اونچی تھی کہ ملکہ نے سارا واقعہ سن لیا۔ واپس جا کر محل میں بادشاہ سے واقعے کا ذکر کیا، ملکہ کو اس وقت بہت حیرت ہوئی کہ بادشاہ نے بھی اپنے مردانہ تکبر کا اظہار کرتے ہوئے کمیار کی بات کو صحیح کہا کہ واقعی ہی ماں کے دودھ کا اور اس کی تربیت کا اثر ہوتا ہے۔

بچہ تو ماں کے پاس ہوتا ہے اور وہ ہی ذمہ دار ہے۔ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے والد کو بری الذمہ قرار دیا۔ ملکہ کو بہت بےعزتی محسوس ہوئی اس نے بادشاہ سے کہا کہ اپنی رائے کسی کاغذ پہ لکھ دے اور نیچے اس نے اپنی رائے بھی لکھ کر اس کاغذ کو محفوظ کر لیا۔ کچھ عرصہ گزرا ملکہ امید سے ہوئی اور جب بچے کی ولادت کا وقت ہوا تو اس نے اپنی خادمہ کی مدد سے قریبی کمیاروں کے نوزائیدہ بچے سے اپنے بچے کو تبدیل کر لیا۔

وقت گزرتا گیا، شہزادہ کمہاروں کے گھر اور ان کا بچہ محل میں پلتا رہا۔ بادشاہ اپنے بچے کی عادات سے بہت پریشان تھا کیونکہ وہ ہر نعمت اور سہولت کو چھوڑ کر صرف گدھوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔ دوسری طرف کمیار بھی بہت پریشان تھے ہمارا بچہ ہمارے خاندانی کام میں بالکل دلچسپی نہیں لیتا انہوں نے اس کو پڑھنے سے ہٹایا، سزا بھی دی اور گدھوں کے ساتھ مکمل کام پر لگا دیا، تھا تو وہ شہزادہ، حکومت کرنا اس کے خون میں تھا اس نے سب کمیاروں کو اکٹھا کیا اور کہا کیا بے وقوفوں کی طرح سب گدھوں کی نگرانی کرتے رہتے ہو روزانہ ایک بندے کی ڈیوٹی لگاتے ہیں، باقی سب آرام سے وقت گزاریں گے۔

اس کی یہ بات سب کو پسند آئی سب نے اس کو اپنا لیڈر بنا لیا۔ ایک جگہ مختص کی جہاں بیٹھ کر باقی لوگوں کے مسائل کو حل کیا کرتا تھا۔ اس نے سب کو کہا کہ اپنے کھانے کے علاؤہ ایک ایک روٹی فالتو لانا اور وہ کھانا مسافروں میں تقسیم کرنے لگا اب اچھے کام کرو تو شہرت تو ہوتی ہے نہ اور یہاں تک کہ جو لوگ بادشاہ کے فیصلوں سے مطمئن نہیں ہوتے وہ آ کر اس بچے سے فیصلے کرواتے۔ ایک دفعہ ایک شخص کو ہیرا ملا اس نے اپنے دوست کو دیا کہ میرے گھر دے دینا، دوست کی نیت بدل گئی اس نے وہ ہیرا تبدیل کر دیا گھر آ کر اس نے ہیرا دیکھا تو وہ نقلی تھا اس نے اپنی بیوی پر شک کیا۔

تینوں بادشاہ کے پاس گئے بادشاہ اور اس کے وزیر اس مسلے کو حل نہ کر سکے اور وقت مانگ لیا۔ جب وہ شہزادہ کے پاس آئے تو اس نے تینوں سے کہا کہ کاغذ پر خاکہ بناؤ تو اس آدمی اور دوست کے خاکے ایک جیسے تھے اس نے فوراً بتا دیا کہ چور اس کا دوست ہے۔ اپنے ساتھیوں سے اس کی تھوڑی مرمت کروائی تو وہ مان گیا اور ہیرا بھی واپس کر دیا۔ بچے کی شہرت آسمانوں کو چھو رہی تھی۔ بادشاہ کو اپنی بےعزتی محسوس ہوئی اس نے بچے کو گرفتار کروایا مقدمہ چلایا اس کو پھانسی کی سزا سنا دی تب ملکہ نے مداخلت کی اور اپنی خادمہ کو بلا کر سارا واقعہ سنایا۔

بادشاہ جان کر بہت خوش ہوا کہ یہ ذہین بچہ اس کا بیٹا ہے اور دوسری طرف اس کی وہ کمیاروں کے بچے سے بھی جان چھوٹ گئی۔ بادشاہ نے ملکہ سے سبب پوچھا تو اس نے وہ بادشاہ کی تحریر سامنے رکھ دی بادشاہ بہت شرمندہ ہوا اور آخرکار یہ بات ماننے پر قائل ہوگیا کہ صرف ماں کے دودھ اور تربیت کا ہی نہیں بلکہ باپ کے تخم اور کردار کا بھی اثر ہوتا ہے ہمیں اگر اپنے بچوں کو بہتر انسان بنانا ہے تو والدین کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ سب کی اولادیں باکردار اور باعمل ہوں۔

Check Also

Muaqaf Ki Talash

By Ali Akbar Natiq