1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Waris Dinari/
  4. Sasti Shohrat Ya Ehsas e Kamtari

Sasti Shohrat Ya Ehsas e Kamtari

سستی شہرت یا احساس کمتری

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آ نہیں سکتا

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں دنیا کیا سے کیا ہوگی ہے، یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے ہمارا معاشرہ روز بروز پستی کا شکار کیوں ہوتا جارہا ہے اخلاقیات اصولوں روایات کو پس پشت ڈال کر ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

میرا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی عزت نفس مجروح کرنا مقصود ہے اس کے باوجود کسی دوست کی دل آزاری ہوتی ہے تو معزرت خواہ ہوں میں تنقید کی نیت سے نہیں اصلاح کی نیت سے یہ کالم لکھ رہا ہوں۔

ایک بات واضح کرتا چلوں کہ میں خود بھی کچھ وقت کے لئے اس بیماری میں مبتلا رہا ہوں تاہم الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے نجات دی رب کریم سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہمیشہ کے لئے اس بیماری سے بچائے رکھے۔

ایک عرصے سے بلکہ جب سے سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ روزانہ بلکہ دن میں کئی بار ایسی حرکتیں کرتے ہیں ان کو دیکھ کر حیرانی اور پریشانی ہوتی ہے، کسی بڑے نامور شخصیت کے ساتھ تعلقات ظاہر کرنے کی خاطر کس حد تک گرتے ہیں۔ اس کے لئے کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں، بس اللہ معاف کرے۔ وہ حرکات کیا کس طرح ہیں مہذب حد تک تحریر میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں ان میں سے کچھ کی ایک جھلک قارئین کی نظرکرتا ہوں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا کوئی دور کا رشتہِ دار بشرط کہ وہ کوئی بڑا آدمی ہو یا پیسے والا ہو ان کو اپنا قریبی عزیز ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ کسی وڈیرے سیاست دان یا آفیسر کے ساتھ سیلفی لے کر کیپشن لگائی جاتی ہے اپنے دیرینہ دوست میر ہشمت خان کے ساتھ خوش گوار موڈ میں ایک یادگار تصویر۔

اسی طرح کسی آفیسر کی تعیناتی یا پرموشن پر میں نے اس طرح کے پوسٹ دیکھے ہیں۔

میں اپنے بھائیوں جیسے دیرینہ دوست تیس مار خان کو چارج سنبھالنے پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں یا یہ کہ میں اپنے بڑے بھائی یا چھوٹے بھائیوں جیسے دوست کو پرموٹ ہونے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ان کی سالگرہ وغیرہ پر باقاعدگی کے ساتھ مبارکباد کی پوسٹیں رکھنا کسی بھی خوشی یا غمی کے تقریبات میں لوگوں کے ہجوم میں گھس کر دھکے کھا کر بھی کسی بڑی شخصیت کے ساتھ تصویریں بنوانا، جبکہ اپنے قریبی حقیقی غریب رشتہِ داروں کو دھکے دے کر ان سے دور بھاگنا۔

اسی طرح کسی بڑے شاپنگ مال میں سیلفی لے کر پوسٹ کر دینا یا کسی معروف فوڈ پوائنٹ پر بیٹھ کر ہوٹل سے لنچ اور ڈنر کی تصاویر شئیر کرنا وغیرہ جیسے عمل شامل ہیں۔ ان حرکات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے تعلقات کن کن بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ ہیں ہم کتنے باعزت معزز اور ہم کتنے پیسے والے ہیں۔

میرے خیال میں اس طرح کے عمل کے مرتکب افراد خود کو دھوکا دے کر لوگوں کے نظروں میں خود کو گرا رہے ہیں اگر وقتی طور پر کچھ وقت کے لئے وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو جلد ہی لوگوں کو ان کی اصلیت اوقات کا علم ہو ہی جاتا ہے پھر ایسے انسان دو کوڑی کا بن کر رہ جاتا ہے۔ میں نے کئی ایسے بھی دیکھے ہیں وہ اپنا تعارف کراتے وقت اپنا تعلق کسی ایسے فرد یا ادارے سے جوڑتے ہیں جن سے وابستہ افراد خود بھی کسی صورت میں اپنی شناخت اور کام ظاہر نہیں کرتے لیکن یہ شہرت کے بھوکے پیاسے لوگ ہر جگہ اپنا تعلق ان کے ساتھ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہمارے یہاں ان کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ تاہم معاشرے میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بہت کم ہیں۔ اپنی ذاتی مشاہدہ کی بدولت میری نظر میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کا وجود تپتی دھوپ گرمی میں ٹھنڈک سے کم نہیں۔

استاد زین العابدین اوستو صاحب ان کے بزرگ ملا در محمد اوستو نے 1906میں استا محمد شہر کی بنیاد رکھی آج یہ شہر استامحمد ڈسٹرکٹ کا ہیڈکوارٹر بھی ہے اور بلوچستان کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے ہمارے یہاں استا محمد میں اوستو فیملی بہت بڑے جاگیر دار ہوا کرتے تھے۔ ایک نجی محفل میں ایسے بات چیت کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ اس وقت کا استا محمد کا بہت بڑا سرمایہ دار زمیندار جن کی زمینیں کئی اضلاع میں واقع ہیں یہ شخص ان کے والد صاحب کے نائب ہوا کرتے تھے ہمارے ہاں نائب اس کو کہا جاتا ہے جو زمینوں کی آمدن اخراجات بزگروں کا حساب رکھتا ہو اس ملازم کو نائب کہتے ہیں۔

استاد زین العابدین نے جس شخصیت کے بارے میں بتایا کہ یہ کسی وقت ہمارا ملازم ہوا کرتا تھا اگر میں اس شخصیت سے تصدیق بھی کرانا چاہوں تو مجھے سو فیصد یقین ہے وہ اس بات کی تائید کریں گے تردید نہیں کریں گے ہم نے زین العابدین اوستو صاحب سے پہلی بار یہ بات سن کر حیران ہوئے تھے کہ وہ لوگ اتنے بڑے زمیندار ہوا کرتے تھے لیکن کبھی بھی اس کا اظہار انھوں نے نہیں کیا۔

کچھ عرصہ قبل ہمارے نصیر آباد ڈویژن میں مامو کمشنر بھانجا اسسٹنٹ کمشنر تعینات رہے نہ کبھی مامو نے نہیں کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر میرا بھانجا ہے اور نہ ہی اسسٹنٹ کمشنر سے کبھی سنا ہو کہ موجودہ کمشنر نصیر آباد میرا مامو یہ بات ہمیں بعد معلوم ہوئی کہ اسسٹنٹ کمشنر کے کئی رشتہِ دار نہایت ہی اہم آور اعلیٰ عہدوں پر فائض ہیں خود ان کے والد کمشنر انکم ٹیکس رہے لیکن کسی کے ساتھ ان رشتوں کا ذکر نہیں کیا۔ ہندو برادری کے نہایت ہی پسماندہ کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت باہمت فرض شناس بہادر نوجوان جو اس وقت ڈپٹی کمشنر ہیں استا محمد میں اسسٹنٹ کمشنر رہے میرے استاد بتا رہے ہیں، جب میں نے ان سے پوچھا کہ سر آپ کے والد گرامی کیا کام کرتے ہیں تو اسسٹنٹ کمشنر نے سندھی زبان میں فخریہ انداز میں کہا کہ سائیں بابو درزی ہیں وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ وہ ٹیلر ماسٹر ہیں۔

انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ آفیسر نے ایک واقعہ سنا کر مجھے حیران کر دیا اس نے بتایا کہ کوئٹہ میں میرے پڑوس میں ایک نوجوان ایک کمرے کے کرایہ کے مکان میں رہتا تھا گھر میں سالن خود پکاتا تھا کچھ عرصہ کے ان کے ساتھ دوستی ہوگئی کئی بار میں نے کہا کہ ہم سالن تیار کریں گے آپ ہمارے ساتھ کھایا کریں وہ نہیں مانے ایک سال کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ کرایہ کے مکان میں رہنے والا نوجوان کوئی عام معمولی نہیں بلکہ خان آف قلات کی فیملی کا فرد ہے اور ان کے والد صاحب ایک محکمے میں چیف انجینئر ہیں۔ جب ہم نے ان سے پوچھا بھائی آپ کا تعلق اتنے بڑے با اثر گھرانے سے ہونے کے باوجود آپ نے کبھی اپنا تعارف اس انداز میں نہیں کرایا تو اس نے کہا کہ میں آپ لوگوں کی طرح کا انسان ہوں اس میں خاص بات کیا ہے میں کہتا ہوں واقعی یہ ترقی یافتہ ممالک یورپ جہاں پر وزیراعظم اور کابینہ کے وزراء لائن میں کھڑے ہو کر خریداری کرتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں ان کے لئے خاص بات نہیں ہے لیکن ہمارے لئے خاص ضرور ہے۔

دیکھا جائے تو ہم سے زیادہ کا تعلق متوسط طبقے بلکہ اکثریت کا تعلق غریب گھرانوں سے ہی ہے ہم میں سے 95فیصد نے تعلیم سرکاری اسکولوں میں حاصل کی سرکاری اسکولوں میں طلباء کی تعداد کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہر جماعت کے دو تین سیکشن ہوا کرتے تھے یعنی سو ڈیڑھ سے زیادہ بچے ہر جماعت میں ہوتے تھے ان سو ڈیڑھ سو میں سے کوئی دس بارہ بچے ہی پڑھ لکھ کر کوئی اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ہونگے بقایا بچوں نے روزگار کی خاطر مختلف پیشے اختیار کرکے اپنا گھر کا گزر بسر کررہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اکثریت کو چھوڑ کر اقلیت کے ساتھ دوستی پر فخر کرتے ہیں۔

بس اس لئے کہ وہ ڈاکٹر انجینئر وکیل پولیس آفیسر یا دیگر اداروں میں آفیسر لگے ہوئے ہیں ان کے ساتھ تصویریں بنانا اپنا شان سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب انسان ہیں مجھے تو اس سوچ پر سخت افسوس ہوتا ہے سکول کا چپڑاسی کالج کا مالی آفیس کا چوکیدار بینک کا گارڈ بھی تو میرا ہم مکتب رہا ہے محلے میں کریانہ سٹور والا برف فروش ہوٹل پر دھاڑی کرنے والا پھل سبزی کی ریڑی لگانے والا بھی تو میرا ہم جماعت رہا ہے ان کے ساتھ خوش گوار موڈ میں تصویریں بنانے کے لیے مجھے موت آجاتی ہے کیوں اس لئے کہ وہ مجھ سے سماجی حوالے سے کمتر ہیں صرف اس وجہ سے میں اپنے ہم جماعتوں سے دور بھاگتا ہوں۔

آپ بجائے کسی شاپنگ مال میں خریداری یا کسی بڑے ہوٹل پر انواع قسم کے کھانوں سے سجی ہوئی ٹیبل کی تصویریں یا کسی بڑی گاڑی میں بیٹھ کر لائیو موسم دیکھانے کے بجائے کبھی کبھار موٹر سائیکل اور رکشہ پر بیٹھ کر مؤسم کو انجوائے کرنے کی تصاویریں بھی آپ لوڈ کیا کریں۔ اپنے سے کم حیثیت والے کسی دوست یا رشتہِ دار کے ساتھ کسی دھابے پر بیٹھ کر چائے پینے یا اپنے محلے کے ریڑی والے ماما رحمت علی کے دہی بھلے کھاتے ہوئے دھنی بخش عرف دھنی کے ریڑی پر دوستوں کے ساتھ فالودہ کھانے کی تصویریں بھی شئیر کرکے دیکھیں کتنا سکون اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ایک بار کرکے دیکھ تو لیں مزا نہ آئے تو میں سزا کے لئے تیار ہوں آئے ہم تہہ کریں کہ عید کا دن اپنے غریب رشتہِ داروں غریب دوستوں کے ساتھ گزاریں گے ان کے ساتھ سیلفیاں بنائیں گے۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman