Riyasat Ki Writ Kahan Gayi?
ریاست کی رٹ کہاں گئی؟
کچے کے مٹھی بھر ڈاکوں کے آگئے پولیس فورس سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے بے بس ہوگئے؟ چند سو ڈاکوؤں نے ایک عرصے سے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے ڈاکوؤں کی کاروائیوں کو عالمی میڈیا میں پذیرائی حاصل ہونے کے بعد ریاست کی بے حسی اور عوام کی بےبسی واضع طور سامنے نظر آنے لگی۔
مضبوط دفاعی نظام کے حامل ایٹمی طاقت والے ریاست کا چند سو ڈاکوں کے سامنے یو بے بس بن جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے عالمی برادری ہمارے طاقتور ہونے کے دعوے پر حیران ہو رہے ہیں کہ چند ڈاکوؤں کو قابو کر نہیں سکتے ہیں اور دعویٰ کیا جاتا ہے ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ معاشی طور پر تو ہم پہلے ہی کنگال ہو چکے ہیں اب اخلاقی طور پر بھی ہمارا جنازہ نکل چکا ہے کم سن بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنے اور تاوان کی ادائیگی خاطر مغویوں کو بری طرح سے مار پیٹ کرکے انہیں شدید زخمی کرنا تاوان کی رقم نہ ملنے پر مغویوں کو بے دردی سے قتل کر دینا یہاں تک بعض مغویوں کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ کو بلا کر ان کے ساتھ ریپ کرکے ویڈیوز بناکر وائرل تک کر دینے جیسے شرمناک حرکتیں بھی کی جاتیں ہیں۔
یوں تو کئی سالوں سے پاکستان میں دہشت گردی سمیت امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے دیکھا جائے تو دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے پاکستان کے دشمن ممالک کا ہاتھ ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے جبکہ ملک میں بڑھتی چوری ڈکیتی قتل رہزنی اغوا کی وارداتوں میں کون کونسے دشمن ممالک ملوث ہے شاید اس سوال کا جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں ہے۔
اس وقت تو پورے ملک میں ڈاکو راج قائم ہے ہر طرف بد امنی کا دور دورہ ہے تاہم سندھ، بلوچستان کے کچھ اضلاع میں بدامنی اور لا قانونیت کی لہر آئی ہوئی ہے جہاں پر ہر وقت بد امنی کا ڈر ہے شریف لوگوں کو یہ خوف دیمک کی طرح سے کھائے جارہا ہے۔
بد امنی اور ڈاکو راج کا یہ سلسلہ دادو لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، پنو عاقل، گھوٹکی، ڈھرکی، کشمور، کندھکوٹ، شکار پور، کرم پور، غوث پور، ٹھل تنگوانی، جیکب آباد سمیت سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے اضلاع صحبت پور، جعفرآباد، استا محمد، ڈیرہ مراد جمالی۔
مذکورہ بالا یہ وہ علاقے ہیں جہاں پر نا شاہراہوں پر لوگ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور نا ہی اپنے گھر اور کاروبار پر ہر وقت خود کو عدم تحفظ کا شکار سمجھتے ہر طرف ایک خوف کا سماں رہتا ہے کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے جس دن کوئی ڈکیتی رہزنی کی واردات نہ ہوا ہو۔ گزشتہ چند دنوں سے شکار پور کشمور اضلاع میں ڈکیتی اور اغوا کی وارداتوں میں اصافہ ہوگیا۔ ڈاکوں کی سرگرمیوں کو روکنے والا کوئی نہیں ہے کچے کے ڈاکو بلا خوف ناصرف جرائم کی واردتیں کرتے ہیں بلکہ اپنی سرگرمیوں اور مغویوں کے ویڈیوز جاری کرنے کے ساتھ حکومت کو چیلنج کرتے آرہے۔
یہ ڈاکوں اتنے سفاک ہیں دوران ڈکیتی ان سے تھوڑی بھی مزاہمت کی جائے یا ان کو مزاہمت کا صرف اندیشہ ہو جائے تو یہ فائر مارنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ اب تک ان ظالموں کے ہاتھوں کئی افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ کئی زخمی ہو کر ہمیشہ کے لئے معذور بن گئے ہیں۔ ان جرائم پیشہ افراد کی دسترس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ان ظالموں نے کسی کو بھی معاف نہیں کیا استاد، شاگرد، پروفیسر، ڈاکٹر، عالم، صحافی، وکیل تک بے دردی سے قتل کر دیئے ہیں۔ اغوا ڈکیتی کی وارداتوں کے خوف سے لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر آج کل ایک ٹرینڈ چل رہا ہے کہ ایک دوسرے کو میسیجز کرکے پیغامات دے رہے ہیں کہ خدا واسطے عید کی خریداری کے لئے باہر نہ نکلیں اگر نکلتے ہو تو مغرب کی اذان اپنے گھر ہی میں سنیں اگر نہیں تو عشاء کی اذان کچے میں سننی پڑ سکتی ہے۔
بد امنی کی بدولت ان علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جبکہ ہندو کیمونٹی اغوا برائے تاوان چوری ڈکیتی اور بھتے کی پرچیوں سے عاجز آکر اپنا تمام کاروبار سمٹ کر ہندوستان شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کافی ہندو پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ بڑی تعداد نے ویزا کے لئے اپلائی کر دیا ہے جو ہندوستان نہیں جاسکتے ہیں انھوں نے بھی ان علاقوں سے نقل مکانی کا سوچ رکھا ہے۔ بدامنی کے خوف سے جس طرح سے مجبور ہو کر ہندو کیمونٹی اپنا آبائی علاقے چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کو دیکھ کر ایک بار پھر پارٹیشن کے وقت کے زخم پھر ہرے ہوگئے کیونکہ ان ہندو کو اپنی دھرتی ماں سے بہت زیادہ محبت ہے اور یہاں کے لوگوں سے بھی۔
میرا ایک ہندو دوست بلکہ بھائی دوست تو کئی تھے اتنی خاموشی سے یہاں سے نکل گئے کسی کو پتہ نہیں چلا ہندوستان پہنچ کر اپنی جو مجبوری بیان کی تو سب نے کہا کہ اچھا کیا جو ہمیں نہیں بتایا چند ماہ قبل وہ خفیہ طور پر پاکستان آئے اور اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کی جس کا سوائے دو تین کے کسی علم نہیں تھا۔ یہاں تک اپنی سگی بہن کے گھر سامنے سے گزرے لیکن ان کو تک اطلاع نہیں کی کراچی پہنچ کر مجھے فون کرکے کہتا ہے کہ بھائی تمھارے پاس ایک دن ہے آکر مل سکتے ہو تو آجاو کل میری فلائٹ ہے۔
افسوس ہے کہ میں مصروفیات کی وجہ سے کراچی نہیں جاسکا۔ تمام روداد تحریر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان چھوڑ کر ہندوستان جانے والے ہندو اپنے علاقے اور دوستوں سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔
ظہر کی نماز ادا کرکے میں یہ کالم لکھنے بیٹھ گیا اور سوچ رہا تھا کہ شکر ہے آج خیر خیریت ہے جیسے ہی نیٹ آن کیا تو دیکھا کہ ڈیرہ اللہ میں استا محمد چوک پر نصف درجن سے زیادہ افراد نے کار کو روکر کار میں سوار پٹرول پمپ کے مالک سے 88لاکھ روپے کی نقدی لوٹ لی مزاہمت کرنے پر اندھا دھند فائرنگ کر پمپ کے مالک کو زخمی کرکے کرکے با آسانی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ضرورت اس امرکی ہے تمام سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر صوبائی حکومتیں وفاق کے ساتھ مل کر نا صرف کچے بلکہ پکے سمیت تمام جرائم پیشہ افراد اور ان کے سرپرستوں کے خلاف فوری طور بے رحمانہ کارروائی کرکے تمام جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرکے تمام مغویوں کو بازیاب کرکے لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کیا جائے نیز ڈاکوں کے ہاتھوں قتل و زخمی ہونے والے بے قصور افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔
پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرکے ان کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر ریاست کی رٹ بحال کر دیا جائے اور دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال مثالی ہے سیاح بلا خوف خطر پاکستان میں سیاحت کر سکتے ہیں۔