Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Qanoon Pasand Ya Qanoon Shikan

Qanoon Pasand Ya Qanoon Shikan

قانون پسند یا قانون شکن

رمضان کے دوسرے عشرے سے ایک روز قبل فیصلہ کیا کہ عید کے تیسرے دن تک سوشل میڈیا اور صحافتی سرگرمیوں سے دور رہوں گا لیکن بہاولنگر واقعے نے عید کے تین دن پورے کرنے نہیں دیئے قلم اٹھاتے پر مجبور کر دیا۔

ہمیں تو بچپن سے یہی تعلیم دی جاتی رہی اور بڑے بزرگ سمجھاتے رہے کہ ہر حال میں قانون کا احترام کرکے ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیں جس کے لئے حتیٰ الامکان کوشش کرتے رہے ہیں لیکن دیکھ رہے طاقتور نا تو قانون کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی قانون سب کے لیے برابر ہے۔

پاکستان میں انصاف اور قانون کا صرف نام ہی رہ گیا منصفین کی طرف جیسے جس طرح انصاف کیا جا رہا ہے سب کو نظر آ رہا ہے اور قانون پر جس طرح سے عمل درآمد کیا جاتا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہی ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر پاکستان میں فرسٹ کلاس زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کو خدا حافظ کہہ کر بیرون ممالک جاکر دوسرے درجے کے بلکہ تیسری درجے کے شہری بننے کو ترجیح دی۔ ایسے کئی افراد یا خاندان کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنھوں نے اپنے منافع بخش کاروبار کو خیر باد کرکے پاکستان سے نکلنے میں عافیت جانی۔

20/19گریڈ میں تعینات پرکشش ملازمتوں کو چھوڑ کر امریکا کینیڈا یا دیگر یورپی ممالک میں جاکر معمولی قسم کے جاب جیسے کہ ہلپر ڈرائیور وغیرہ یہاں تک وزارت چھوڑ کر اس قسم کے معمولی ملازمت کرنے پر بھی وہاں پر بہت خوش ہیں وجہ یہ کہ وہاں پر انصاف اور قانون ہے اور یہ کہ وہاں پر قانون سب کے لیے ہے۔ لوگوں میں تحفظ کا مکمل احساس ہے گزشتہ دو تین عشروں سے وطن عزیز کے حالات سے مایوس ہوکر حساس لوگوں کی یہ ہجرت جاری ہے بلکہ اس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔ وجہ یہی ہے ملک میں امن و امان قانون و انصاف کی صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے لوگوں کی بڑی تعداد موقع کے انتظار میں ہیں جب بھی موقعہ ملا پاکستان چھوڑنے میں ایک سیکنڈ دیر نہیں کریں گے۔

ان حالات کو دیکھ کر اس وقت بہت بڑا طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو ہر روز مرتے جیتے ہیں۔ جیتے اس امید پر ہیں کہ شاید حالات بہتر ہوں لیکن حالات بہتری کی طرف جانے کے بجائے بدتری کی جانب دوڑ رہے ہیں گزشتہ روز بہاولنگر میں پنجاب پولیس اور پاک آرمی کے جوانوں کے درمیان جو ناخوش گوار واقعہ پیش آیا پوری دنیا نے دیکھا وطن عزیز میں قانون کے رکھوالے کس طرح قانون کا احترام کرتے اور کیا گل کھلاتے ہیں اس طرح کے واقعات کبھی کبھار وائرل ہو کر عام لوگوں تک پہنچ جاتے جیسے کہ کراچی میں 2011میں سر فراز شاہ کا قتل ہوتے ہوئے سب نے دیکھا تھا۔

یہ تو ایک واقعہ ہے جو وائرل ہوا ہے پاکستان میں جو بھی طاقتور طبقہ ہے ان سے اس طرح کے واقعات آئے روز سرزد ہوتے رہتے اس طرح کے واقعات تو ان کے روز کا معمول ہے۔ بہاولنگر واقعے کی اسٹوری سب نے دیکھی بھی سنی بھی اور جس طرح اس واقعے پر یہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی بڑے بھائی اور چھوٹے بھائیوں کے درمیان کبھی کبھار ناراضگی ہو جاتی ہیں بہاولنگر واقعے کے بارے میں سب کچھ جانے کے باوجود بھی۔

اس واقعے پر روشنی ڈالنے حقیقی تجزیہ پیش کرنے کی خاطر بہت ہی کم لوگ میدان میں ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ کسی نے اس طرح کے واقعات میں غیر جانبدارانہ بیان دیا مؤقف اختیار کیا تو اس کا سافٹ ویئر فوری طور آپ ڈیٹ کردیا جاتا ہے۔ سافٹ ویئر آپ ڈیٹ ہونے سے بچنے کے لئے لوگ خاموشی کو ہی بہتر سمجھتے ہیں۔

بہاولنگر واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے تین گروپ سامنے آئے ہیں۔۔

1 پنجاب پولیس کی زیادتیوں چادر چار دیواری کی پامالی کرنے سیاسی کارکنوں کو حراساں کرنے کے شکار افراد جنھوں نے یہ سین دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں اور اپنی دل کی بھڑاس مختلف قسم کے کمنٹس دے کر نکال رہے ہیں۔

دوسرا گروپ جو پاکستان کے مخالفین کا ہے جو اس طرح کے واقعات کو دیکھا کر پاکستان کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں بہاولنگر واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے اس وقت ان کی خوشی بھی دیدنی ہے۔

تیسرا طبقہ جو محب وطن پاکستانیوں کا ہے جو پہلے ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی عدم تحفظ لا قانونیت کا شکار رہیں ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور قانون کے محافظوں کا اس طرح کا چہرہ ان کے سامنے آنے سے کئی لوگوں کے دعوے کے سچ ثابت ہورہے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں اب عام شہری کو بھی سچ لگنے لگے ہیں۔

اب بعض پولیس مقابلے چھاپے لوگوں کو مشکوک لگے گے یہی سوچ دیگر اداروں کے بارے میں بھی پیدا ہونے لگی ہے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے ہیں یا ان کے لواحقین میں مائی جندو جیسی بہادر سخت جان مرد یا خاتون نہیں جو اپنے حق کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ کرنے نہیں کرتے۔ لیکن اس وقت حالات جس طرف جا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کئی مائی جندو پیدا ہو جائیں گے گو کہ مائی جندو دور کے منصف نہیں رہے لیکن مائی جندو جیسی مایں پیدا ہوتیں ہیں تو اس دور کے منصف بھی انصاف کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

ظلم زیادتیوں سے دماغی میموری بھرا ہوا ہے اس کے باوجود اپنا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں رمضان شریف کے بیسویں روزے پر میں نے افطاری کے بعد ڈاؤ یونیورسٹی سے ایک رکشے والے کو ہاتھ دیا کہ مجھے بلیو لائن کے اڈے پر لے چلو تو اس نے کہا کہ پانچ منٹ انتظار ہاتھ منہ دھو لو میں نے دیکھا کہ وہ حواسہ باختہ تھے۔

میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ میں روزے تھا کوشش کررہا تھا کہ افطاری گھر میں جاکر بچوں کے ساتھ کروں تیزی کے ساتھ جارہا تھا راستے سے جلوس گزر تھا میں نے جلوس سے نکلنے کی کوشش کی تو پولیس والوں نے مجھے پکڑ کر روزے کی حالت میں مارا یہاں تک کہ ناک سے خون بہنے لگ میں نے التجا کے انداز میں احتجاج کیا تو انہوں نے گن تان کر کہا کہ ہاف فرائی ہونے کا شوق ہے کیا تو میں نے ایک ایک اہلکار سے معافی مانگ کر اپنی جان چھڑائی۔

جب میں نے اس نوجوان رکشہ ڈرائیور سے پوچھا کہ بھائی آپ مجھے پڑھے لکھے لگتے ہو تو انھوں نے بتایا کہ سر میں نے فزکس میں ماسٹر کی ڈگری لی ہے جبکہ سول انجینرنگ میں ڈپلومہ بھی کیا ہے اس وقت سٹی کورٹ کراچی میں جاب بھی کرتا ہوں بس مہنگائی کی وجہ سے پارٹ ٹائم رکشہ چلاتا ہوں تو میں حیران رہ گیا۔ بھائی پھر پولیس والے کی یہ مجال جو آپ کو ہاف فرائی کی دھمکی دے تو اس نے کہا کہ میں اندرون سندھ سے نوکری اور روز گار کرنے کے لئے آیا ہوں بیشک میرا جاب کورٹ میں ہے لیکن میں ان کے ساتھ پنگا لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہوں کراچی ہو اندرون سندھ یا پھر بلوچستان ہر جگہ کئی بے گناہ ہاف فرائی اور فل فرائی ہوچکے ہیں۔

اب ملک کی بقا اور سالمیت اسی میں ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیں اگر ادارہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہیں آئین قانون کی پامالی میں ملوث پائے جاتے ہیں تو اس کے لئے بھی قانونی طریقہ کار اختیار کیاجائے یہ نہ کہ خود قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی پر دھاوا بول دیا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر حال میں قانون کا رٹ قائم کرکے قانون سب کے لیے برابر والے نعرے کا لاج رکھ کر لوگوں کو فوری سستا انصاف فراہم کرکے امن و امان کو بحال کرکے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے پولیس اور دیگر اداروں کے استعمال کو روکر قانون کا بول بالا کریں۔

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal