Mehv e Hairat Hoon
محو حیرت ہوں
مجھے تو 30 جنوری تک یقین نہیں ہورہا تھا کہ الیکشن ہونگے ہوسکتا ہے کہ بہت ہی کم لوگ اس وقت مجھ سے اتفاق کرتے ہوں تاہم چند ایک کا خیال یا سوچ کچھ حد تک مجھ سے ملتی ہوگی۔ میری سوچ کی اس وقت کئی وجوہات میرے سامنے نظر آرہی تھیں جن کا ذکر اس وقت مقصود نہیں۔ غیر یقینی صورتحال کے باوجود الیکشن ہوگئے تو بہت ہی اچھا ہوا لیکن کیسے ہوئے؟ الیکشن میں کیا کچھ ہوا۔ اب کیا ہو رہا ہےسب کے سامنے ہے الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کیں، امیدواروں کے انتخابی اخراجات سمیت 80 نکاتی ضابطہ اخلاق پر کس حد تک عمل کرائی گئی تمام باتیں کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی ہیں۔
الیکشن کو ہوئے دو ہفتوں سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک لوگوں کی روزمرہ کی زندگی اور کاروباری سرگرمیاں بحال نہ ہو سکیں ہیں۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں بعض حلقوں میں آر اوز ڈی آر اوز کی غیر جانبداری مشکوک ہونے کی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے ووٹرز، ورکرز سراپہ احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ مشتعل افراد کئی علاقوں میں دھرنا دے کر سڑکیں بلاک کیئے ہوئے ہیں زیادتی نا انصافی کے خلاف آواز ضرور اٹھانی چاہئے یہ ان کا حق ہے لیکن اس میں عام عوام کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں ان بیچاروں کا تو کوئی قصور نہیں ہے پھر ان کو کیوں تکلیفیں دی جارہی ہے۔
پہلے کیا وہ کم مصائب کے شکار ہیں جو مزید ان کی پریشانیوں میں اضافہ کریں۔ میں نے اپنے قرب و جوار میں دیکھا کہ سڑکیں بند کرنے سے لوگوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے دیکھا سڑکیں بند کرنے سے مریضوں خواتین بچوں عمر رسیدہ افراد کس قدر مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ مجھے ایک گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کے اہلکار نے بتایا کہ دن کو اس لئے سفر نہیں کرتے ہیں کہ احتجاج ہڑتالوں کی وجہ سے روڈ بلاک ہوتے ہیں رات کو پھر ڈاکوں کا ڈر ہوتا ہے کیونکہ یہ ڈاکوں لوٹ مار کرنے کے علاؤہ سندھ کے بعض علاقوں میں ڈرائیوروں کو اغوا بھی کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں کس طرح سفر کریں اور کاروباری زندگی رواں دواں رہ سکتے ہیں۔ متنازعہ نتائج کے حلقوں کی عزاداریاں سننے اور فیصلہ آنے نئی حکومت بننے تک مجھے حالات جوں کے توں لگتے ہیں لوگوں کی پریشانیاں کم ہونے کا نام ہی نہیں لیں گے۔
نئی حکومت سے بات یاد آئی کہ 2024کے الیکشن گزشتہ تمام انتخابات سے بہت زیادہ مختلف ہیں نتائج کے حوالے سے یا پھر اتحاد و انکشافات کے حوالے سے حیران و پریشاں کن ہیں حیرانگی تو انتخابی نتائج پر کہ کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگے یعنی بعض امیدوارں کی ہار پر اور بعض امیدوارں کی جیت پر ملک بھر کا تو میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہوں بلکہ بلوچستان کا ذکر کر رہا ہوں یہاں پر ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے ہیں۔
اسی طرح حکومت سازی کیلئے مختلف پارٹیوں کے سربراہان کی جانب سے مذاکرات کرنے اور حکومتی اتحاد میں شامل ہونے پر اپنا حصہ طے کرنے کے معاملات پر بات چیت جاری ہے کل کے رقیب آج کے رفیق بنتے نظر آرہے ہیں جو ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے آج بہت ہی اچھے با اصول بن گئے ہیں جن القابات سے ایک دوسرے کو نوازتے رہے ہیں آج پاکستان کے بچے بچے کو نا صرف یاد ہے بلکہ موبائل اور کمپیوٹرز میں محفوظ بھی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں حکمران سیاست دان ایک دوسرے کے کسی بھی حد تک جانے کے بعد اپنے چہرے کے ہر بد نما داغ کو جمہوریت کی کریم سے صاف کرتے ہیں۔
ٹھیک ہے اختلاف رائے رکھنا جمہوریت کا حسن ہے لیکن افسوس کہ اس حد تک جانے کے بعد بھی یہ جمہوری کریم کا استعمال کرکے اپنا چہرہ تو بظاہر صاف کرلیتے ہیں۔ ان کے ان نظریاتی سوچ رکھنے والے ورکرز کا کیا ہوگا جنھوں نے پارٹی اور اپنے قائد کی ہر آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی مشکلات برداشت کی سیاسی اختلاف کے بنا پر دوستیاں تعلقات یہاں تک خونی رشتوں کو بھی ان بازیگر سیاستدانوں کی نظر کر دیا۔ اب ان پارٹی کارکنوں کے دل پر کیا گزر رہی ہے ان کا کیا ہوگا جن کے بھائی بیٹوں نے ان کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دی ہے یہ عمل ہم سب کے لیے سبق ہے۔ حیرانی و پریشانی کا تو مختصر نقشہ پیش کیا ہے انکشافات کے بارے میں اپنی کیفیت یو بیان کرتا ہوں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے معزرت کے ساتھ۔۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوگی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سیاست کو عبادت سمجھ کر لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے یہ کہہ کر سیٹ لینے سے انکار کیا کہ اس پر میرا حق نہیں بنتا ہے یہ نشست فلاں امیدوار جیت گیا اس طرح کی اخلاقی جرت بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔