Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Main Kis Ke Hath Pe Apna Lahoo Talash Karoon

Main Kis Ke Hath Pe Apna Lahoo Talash Karoon

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

آج میں کہہ رہا ہوں میں کم سن بچوں میکائیل، جبرائیل، ام ہانی اور ان کی ماں ندا کی لہو کس کس کے ہاتھ پر تلاش کروں یہاں پر تمام شہر کیا پورے ملک نے ہاتھوں میں دستانوں کے ساتھ آنکھوں پر پٹی اور چہروں پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ متوفی احسن رضوی نے تو اپنے بیوی بچوں کو کہا کہ تم لوگ شہید ہو۔ شہید کیوں کہا وہ اس لئے کہ دو سالہ ام ہانی چار سالہ جبرائیل چھ سالہ میکائیل اور ان کی والدہ ندا رضوی بے گناہ قتل ہوئے ہیں۔

کوئی بھی مسلمان بغیر کسی جرم کے قتل ہو تو وہ شہید ہی ہے ان چاروں مقتولین کا کوئی بھی قصور نہیں تھا جن کو اتنی بڑی سزا دی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو قاتل متوفی احسن رضوی کا بھی کوئی قصور نہیں ہے، قصور ہے تو حکمرانوں کا قصور ہے۔ اس بے حس سماج کا معاشرے کا اس سسٹم کا جس میں امیر دن بدن امیر سے امیر تر جبکہ غریب بھوک کی وجہ سے اپنے بچوں کی جان لینے پر مجبور سے مجبور تر ہوتا جارہا ہے۔

اب یہاں جائز کمائی سے دو وقت کی روٹی کھانا بہت مشکل ہوتا ہے ہاں اگر یہاں پر آپ سیاست کرنا جانتے ہو جس میں جھوٹ بولنے میں لوگوں کو سبز باغ دیکھانے پارٹیاں بدلنے میں ماہر ہو یا پھر کسی پر کشش پوسٹ پر بیٹھا سرکاری ملازم ہو یا پھر بے ایمان جعلی دونمبر چیزیں بنانے بیچنے والا ملاوٹ خور ذخیرہ اندوزی کرنے والا تاجر ہو۔

سیاست دانوں سے مراد صرف پی ایم یا سی ایم نہیں بلکہ یوسی چیرمین تک اسی طرح سرکاری ملازم سیکرٹری یا کمشنر سمیت کلرک پٹواری تک ہیں۔ بے ایمان تاجروں کا بھی یہی حال ہے اس قسم کے لوگوں پر دولت کی دیوی جلد ہی مہربان ہو جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اثاثوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ اگر کبھی کبھار کسی ادارے سے کوئی نا جائز آمدنی اور اثاثہ جات کی تحقیقات کرنے کے لئے آئے تو وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

بس اس قسم کے لوگوں سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا کیونکہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح سے معزرت کے ساتھ پانچ ہزار کے نوٹ پر کسی دل جلے نے لکھ دیا کہ جتھے پھسو تہ معنوں دسو اس طرح قائد اعظم کی مہربانی سے ایسے لوگ ہر قسم کی تحقیقاتی جال کو پھاڑ کر کر با آسانی نکل جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایماندار خوف خدا رکھنے با اصول پرست با ضمیر سیاستدان اعلیٰ سرکاری ملازمین بیوروکریٹ تاجر بھی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔

دو روز قبل سوشل میڈیا ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوئی کہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب واقع فلک ناز اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر احسن رضوی نے تین بچوں اور بیوی کو مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا جس کی وجہ معاشی پریشانی بیان کی جاتی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ اس خبر سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ آخر احسن اتنا بڑا قدم اٹھانے پر کیوں مجبور ہوا؟ معاشی پریشانی اگر نہیں تو معاشرتی پریشانی ہی ہوگی اور جب کہیں سے بھی انصاف کی توقعہ نہ ہوں تو پھر اس قسم کے اقدام کرنے پر انسان مجبور ہو جاتا ہوگا۔

اس دل خراش واقعے کا سن کر ہر وہ انسان افسوس کرتا ہے جو اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا ہے باقی جن کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا یا جن کے ہاتھ میں طاقت ہے جو سب کچھ کر سکتے ہیں ان کے تو کانوں پر جو تک نہیں رینگی۔ اس طرح کا عمل کرنے والا پاکستان میں ایک احسن رضوی نے نہیں ہے بلکہ آپ نیٹ پر دیکھیں صرف کراچی شہر میں آپ کو کئی احسن ملیں گے جنھوں نے غربت اور نا انصافی سے تنگ آکر اپنے بچوں گھر والوں کوقتل کرنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ہے۔

کوئی دن اب خالی نہیں ہے خبر نہ آئی ہو کہ ماں نے غربت سے تنگ آکر بچوں کو زہر دینے کے بعد خود زہر کھا لیا یا کسی بلند عمارت سے اپنے بچوں کے ساتھ کود کر اپنی جان دے دی بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی ایسے واقعات سے ہمارے اخبارات بھرے پڑے ہیں، لیکن مجال ہے کہ پتھر دل طاقتور با اختیار طبقے کو کوئی فرق پڑتا ہو۔ شرمندگی خفت مٹانے کے لئے ایک آدھا اخباری بیان پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے کیا اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک اسلام کے زریں اصولوں پر چل رہا ہے یا انسانیت سوز کارنامے انجام دیئے جارہے ہیں ہمارے حکمرانوں اور ارباب اختیار کی زندگیوں میں کہیں اسلام کی کوئی جھلک نظر آتی ہے؟

حضرت عمر فاروق تو دریا کے کنارے کتا پیاسا مرنے پر خود کو جواب دہ سمجھتا ہے میں اس ہستی کی مثال نہیں دیتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے اور ان کی تربیت حضرت محمد ﷺ کے ساتھ رہ کر ہوئی ہے میں آج حضرت عمر بن عبد العزیز سے جوڑے ایک واقعے کا ذکرکرتا ہوں۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس ایک عورت آئی جس کی پانچ جوان بیٹیاں تھی خاوند فوت ہو چکا تھا وہ جس کے پاس جاتی سب خوش آمدید کہتے لیکن یہ خوش آمدید اس کے لیے نہیں تھی اس کے غریبی کے لیے نہیں تھی اسکی خوبصورت جوان بیٹیوں پر گندی نظر ڈالنے کے لیے ہوتی۔

سمجھدار عورت تھی بہت جلد سمجھ گئی کہ میرے لیے جوان بیٹیوں کی عزت بچانا مشکل ہے تو وہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دروازے پر آئی دستک دی کسی نے بتایا تھا کہ عمر بن عبدالعزیزؒ ایسا بادشاہ ہے کہ وہ آپکی جان و مال کا محافظ ہے وہ آپکی مدد کرے گا۔ ایک عورت نے دروازہ کھولا وہ اندر گئی ایک عورت برتن دھو رہی تھی وہ سمجھی کوئی خادمہ ہے اس نے اسے ایک درخت کے نیچے بٹھایا، تو اس نے پوچھا امیر المومنین کہاں ہے اتنے میں ایک آدمی اندر آیا جس کے کپڑے پٹھے ہوئے تھے اور کندھے پر ایک گٹھلی تھی۔

وہ گٹھلی اس عورت نے لے لی وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا تو وہ عورت سوکھی روٹی اور سرکہ لے آئی وہ عورت سمجھی کوئی غلام ہے جب وہ کھانا کھا چکے تو اسی عورت نے آواز دی کہ امیرالمومنین مہمان آئے ہے وہ عورت کہتی ہے میں حیران رہ گئی میں نے اس خادمہ سے کہا کہ آپ میری غریبی کا مزاق اڑا رہی ہے؟ یہ پھٹے ہوئے کپڑے اور سوکھی روٹی کھانے والا امیرالمومنین ہے تو اس نے کہا کہ اللہ کی قسم یہی امیر المومنین ہے۔

میں جب ان کے قریب گئی تو اس میں اتنی حیاہ تھی کہ اس نے اپنی نظریں جھکا لی فرمانے لگے کیسے آئی ہو میں نے کہا یہ میری بیٹیاں ہے میں غریب بیوہ ہوں میرے پاس ان کے لیے کچھ نہیں میرا خیال تھا کہ امیرالمومنین میری تمام بیٹیوں کے لیے سو دینار لکھ دے تو کافی ہے اس نے قلم اٹھایا میری ایک بیٹی کے لیے ایک سال کے لیے ایک ہزار دینار لکھ دئیے میں دوسری کو آگے کیا اس نے اس کے لیے بھی ایک ہزار دینار لکھ دئیے، میں نے تیسری چوتھی کو آگے کیا اس نے ان کے لیے بھی ہزار ہزار دینار لکھ دئیے جب وہ لکھ رہے تھے میں اللہ کا شکر ادا کرتی رہی اور جب پانچویں بیٹی کے لیے دینار لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو میں نے امیرالمومنین کا شکریہ ادا کیا۔

اس نے قلم واپس رکھا میں نے پوچھا امیرالمومنین کیا ہوا تو فرمانے لگے میں نے چار ہزار دینا اپکے لیے لکھے تو آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اس دفعہ آپ نے میرا شکریہ ادا کیا قیامت کے دن اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ ہزار دینار تم نے میرے لیے نہیں لکھے اپنی خوشامدی کیلئے دیئے۔ میں رونے لگی کہ یااللہ یہ کیسا انسان ہے تو عمربن عبدالعزیز کہنے لگے کہ عام انسان ہوں بس رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں افسوس کہ آج ہم میں سے ہر ایک عاشق رسول غلام رسول اللہ کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اپنے قول کے بر عکس فعل کرتا ہے۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani