Ilteja (2)
التجا (2)
اب ہمیں اپنے کپڑے بیچنے پڑ رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ہر دور میں سبز باغ دیکھائے ہیں اور ہم لوگ بھی جلد ہی ان کی باتوں پر یقین کرکے روشن مستقبل کے لئے سہانے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ایک عرصے تک ان سنہرے خوابوں میں کھوئے رہتے ہیں اسی طرح خوشحالی کے سنہرے خواب دیکھتے دیکھتے ایک صدی ہونے کے قریب ہم پہنچ گئے۔ لیکن تعبیر سے اب تک محروم ہیں دیکھا جائے تو ہمارے حکمرانوں کے تمام دعوے ہمیشہ خواب ہی رہتے ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا ہے۔
سنہرے خوابوں کی ابتداء تو وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے قبل شروع ہوا جو تاحال جاری ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی کے بجائے تیزی آتی جا رہی ہے ستم تو یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والے ہر شخص نے عوام کی خدمت کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کی یا اس پر قبضہ کیا ہے۔ اس اقتدار کے کھیل میں تمام طاقتور لوگ شامل ہیں سبز باغ اور دلکش نعروں کی بات کی جائے تو ہر دور میں مختلف نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے۔
کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا تو کبھی نظام مصطفٰی یا پھر یوتھ کیلئے یہ نعرہ جب آئے گا عمران بڑھے گئی اس قوم کی شان بنے گا نیا پاکستان۔ مہنگائی کو ختم کرنے اور سستے آٹے کی فراہمی کیلئے مجھے اپنے کپڑے بیچنے پڑے تو میں یہ بھی کرونگا عوام کو ہر حال میں ریلیف دونگا، نہ تو ملک میں نظام مصطفٰی نافذ ہوا نہ ہی لوگوں کو روٹی، کپڑا، مکان ملا بلکہ بعض تو یہاں تک کہتے رہے ہیں۔ روٹی کی جگہ گولی، کپڑے کے بدلے میں کفن اور مکان کی جگہ قبر ملا ہے۔
اسی طرح نہ تو نیا پاکستان بنا اور نہ ہی قوم کی شان بڑھی ہے جبکہ پرانے پاکستان کا بیڑہ بھی غرق کر دیا ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کیلئے مجھے اپنے کپڑے بیچنے پڑے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا۔ آج کل کے جو حالات ہیں لگتا ہے کہ صرف دو ایک ماہ میں 99 فیصد عوام احساس پروگرام کے مستحق بن جائیں گیں جبکہ ملک کی ایک فیصد آبادی وہ جو ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں یا جانے والے ہیں ان میں حکمران بھی شامل ہیں وزیراعظم صاحب آپ نے تو اپنے کپڑے نہیں بیچے ہیں آپ نے ہمیں اپنے کپڑے، اپنے بچے، اپنی خوداری بیچنے پر مجبور ضرور کر دیا ہے۔
اقتدار سے پہلے میں یہ کرونگا وہ کرونگا ملک کی معیشت کو اس طرح ٹھیک کیا جاتا ہے، میرے پاس تجربہ کار ٹیم ہے ہم ملک کی معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے سادگی اختیار کریں گے۔ کفایت شعاری ہماری منشور میں شامل ہے، کابینہ کا حجم مختصر ہوگا، عوام پر بےجا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ اس طرح کے دلکش نعرے ہر آنے والے حکمران کا وطیرہ رہا ہے۔ لیکن ہر دور میں ہم نے دیکھا کہ بے جا اخراجات کم نہیں بلکہ ختم کرنے کے دعوے کرنے والے جب اقتدار میں آتے ہیں تو پھر ان کا ٹون تبدیل ہو جاتا ہے۔
اور پھر یہی لوگ اس طرح کا راگ شروع کر دیتے ہیں سابقہ حکومت نے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ملک کی معاشی حالت ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ابتر ہے۔ سابقہ حکومتوں نے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر انھیں سبز باغ دیکھائے ہیں ہم ایسا نہیں کریں۔ ہم اصل حقیقت اپنی قوم کو بتائیں گے۔ ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ جب سے یہ ملک بنا ہے نازک دور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔
قوم کو آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے جب اس وقت حکومت نے نعرہ لگایا تھا قرض اتارو، ملک سنوارو یا پھر ڈیم بناؤ پاکستان بچاؤ۔ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب ہوں یا پھر قیامت خیز زلزلہ۔ کرونا ریلیف فنڈز ہوں نہ ملک سنورا، نہ ہی عوام کو ریلیف ملا لیکن حکمرانوں کی نسلوں کی زندگیاں سنور گئی ہیں۔ موجودہ ہمارے برسر اقتدار رہنما یہ گیت گا رہے ہیں ہم نے سیاست کی قربانی دے کر ریاست بچائی ہے جو دراصل یہ سب ان کی ڈارمے بازی ہی ہے حقیقت تو نہیں بتاتے ہیں بلکہ عوام کو مذید اندھیروں میں دھکیلتے ہیں۔
جب موجودہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سیاست کی قربانی دے کر ریاست کو بچایا ہے حیرانی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق چھ ماہ میں 22 سو لگژری کاریں امپوررٹ کی گئی ہیں جن کی مالیت ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر بیان کی جا رہی ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کی خاطر پوری قوم کی خوداری کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کمال مہربانی کرتے ہوئے گیس، بجلی مہنگی کرنے کے ساتھ عوام کو مختلف مد میں دی گئی سبسیڈی ختم کرنے کا مطالبہ کرکے عوام کی کمر توڑنے پر تلی ہوئی ہے۔
جبکہ اشرافیا کے بے جا اخراجات کو کنٹرول کرنے مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کم کرنے کی تو بات ہی نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا ہمیشہ اسی پر زور رہا ہے گیس، بجلی، پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے ساتھ غریبوں کو سبسیڈی کے نام پر دی گئی ریاعت کو ختم کیا جائے۔ یہاں میں کسی دل جلے پاکستانی کا ذکر نہ چاہوں گا۔ جس نے کہا کہ میں جب اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو بہت ہی زیادہ افسوس ہوتا ہے اس وقت ملک میں مہنگائی کی سونامی آئی ہوئی ہے، دو وقت کی روٹی کا حصول دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
لیکن پاکستان کے کچھ طبقے جن میں حکمران، بیوروکریٹ دیگر کچھ طبقے ہیں جن کا نام انہوں نے تو لکھا لیکن میرے لئے لکھنا بہت مشکل ہے وہ تو کروڑپتی سے ارب پتی بنتے جا رہے ہیں جبکہ ملک ڈیفالٹ کی جانب جا رہا ہے آخر کب تک عوام کو دور سے یہ لولی پاپ دیکھاتے رہیں گے اور ہم کب تک اس دیہاتی کی طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔ دیہاتی کو تو کئی روز کی جدوجہد کے بعد منزل مل گئی۔ لیکن حکمرانوں نے ہماری منزل سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے۔