Daulat Ki Numaish
دولت کی نمائش
رمضان مبارک کی آمد سے قبل ہی میں نے فیصلہ کیا کہ اس ماہ مبارک میں صحافتی مصروفیات سے ایک مہینے کیلئے کنارہ کشی اختیار کرکے سوشل میڈیا سے بھی عارضی چھٹی لیکن یہ سوشل میڈیا بھی ایک نشے سے ہرگز کم نہیں۔ نیٹ چوبیس گھنٹے آن رکھنے والا شخص اگر ایک دو گھنٹے آن لائن ہو جائے تو ایک قسم کا قید تنہائی ہے کافی دن اس قید تنہائی میں بھی گزارے۔ دن مشکل سے کٹ رہے تھے یہی عزم تھا کہ رمضان مبارک میں نیوز اور کالم سے کنارہ کشی رہے گی لیکن چند ایک واقعات نے نیوز اور کالم کیلئے مجبور کیا ہے۔
ایک تو یہ کہ ہم ملک کی تاریخ کا مہنگا ترین رمضان گزار رہے ہیں اس کمر توڑ مہنگائی میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بہت ہی دشوار ہوگیا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی نے سب کے ارمانوں، خواہشوں کا قتل عام کرکے رکھا ہے، وہاں پر چند لوگ جن کو نودولتی ہی کہا جائے انہوں نے ہر موڑ پر اپنی دولت کی نمود و نمائش کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک طرف ایک بہت بڑی آبادی کو دو وقت کی سوکھی روٹی ہی میسر نہیں ہے لوگ نان شبینہ کیلئے سخت پریشان ہیں ہر چہرے پر مایوسی پریشانی دور سے جھلک رہی ہے۔
جبکہ دوسری جانب کچھ دولتی ہر وقت اپنی دولت کے نمائش کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ شادی بیاہ ہو یا کوئی دیگر رسوم یہاں تک روز افطاری ہو یا کسی چھوٹے بچے بچی کی روزہ کشائی کی تقریب غرض کہ کوئی دینی فریضہ حج عمرے جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی میں بھی پیسے کی نمائش جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازہ ہے تو آپ اس کا شکر ادا کریں اس خالق کے مخلوق کی خدمت کریں اگر یہ نہیں کر سکتے ہو تو بیشک کھانے پینے، گھومنے پھرنے پرتیش آرام دہ زندگی گزارنا آپ کا حق بنتا ہے۔
اپنی زندگی کو خوب انجوائے کریں ان سہولیات کو اپنی ذاتی زندگی تک محدود رکھیں ان کی نمائش ہرگز ہرگز نہ کریں۔ لوگوں کے چہرے پڑھیں کہ وہ کس قرب سے گزر رہے ہیں اسی طرح عمرے پر بھی دیکھاوے سے اجتناب کریں پھر دیکھیں عبادت کا مزہ۔ ویسے دیکھا جائے تو اس طرح سے عمرہ کیا جا سکتا ہے۔ کوئی آنکھ نہ دیکھے صرف اور صرف اللہ ہی کیلئے ہو آپ نے خاموشی کے ساتھ اپنا ٹکٹ پاسپورٹ جیب میں ڈال کر نہایت ہی خاموشی کے ساتھ ائیرپورٹ چلے جائیں۔
نہ کوئی اعلان ہو اور نہ ہی مدینے والے کے بلاوے کا دعویٰ کریں اور نہ ہی دوسرے کم نصیبوں سے اپنی خوش نصیبی اور سرکار کے بلاوے کا واقعہ بیان کریں عمرہ ادا کریں بغیر کسی ویڈیو یا سیلفی لئے مدینے کو روانہ ہو جائیں اور جب وہاں پہنچ جائیں تو وہاں کی نمازوں روح پرور نظاروں کو اپنے ہی دل میں رکھ کر عاجزی کے ساتھ واپس آ کر بغیر ہار پہنے، دعوتیں کھائے اپنے ہی جائز کاموں میں جڑ جائیں، کبھی آپ ایسا کرکے ہی دیکھیں جو قلبی سکون اور خوشی آپ پائیں گے جن کا آپ نے کبھی تصور تک نہیں کیا ہوگا۔
ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسطرح کا ایک سچا حیران کن واقعہ میں بیان کرتا ہوں۔ کامریڈ لیاقت علی عمرانی جو کہ میرا ہمسایہ ہے زمینداری کا کام کرتا ہے بال بچے گاؤں میں رہتے ہیں۔ آج سے ایک عشرہ قبل کی بات ہے ایک دن اس کا بڑا بیٹا شہر آیا اس کے جاننے والوں سے پوچھنے لگا کئی روز ہوگئے ابو کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ اس کے بیٹے نے بتایا چند روز تک کامریڈ کے ساتھ رابطہ نہ ہوا تو ہم سمجھے شاید وہ بیمار ہوگئے۔
لیکن یہاں شہر میں آ کر معلوم ہوا ہے وہ تو کئی روز سے نظر نہیں آ رہے۔ تمام گھر والے سخت پریشان پھر کسی نے آکر بتایا کہ وہ تو عمرے پر چلے گئے ہیں جس خاموشی کے ساتھ وہ عمرہ ادا کرنے گئے اسی خاموشی کے ساتھ واپس ہوئے کسی کو پتہ ہی نہیں۔ اللہ واسطے اپنے کھانے پینے سے لے کر اپنی عبادات کو اپنے تک محدود کریں۔ دوسری بات جس نے مجھے کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ کہ رمضان سے ایک روز قبل۔ میرے ہی برادری سے تعلق رکھنے والے چار افراد کا بے دردی سے قتل۔
وہ اس طرح کہ ہماری برادری کے کچھ افراد اوستہ محمد سے شادی کرکے باراتیوں کے ساتھ ہنسی خوشی واپس اپنے گاؤں کھاری جھل مگسی جا رہے تھے، راستے میں گھات لگائے مسلحہ افراد نے باراتیوں کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں چار افراد موقعہ پر ہلاک ہوئے جن میں ایک کم سن بچہ اور خاتون بھی شامل ہے۔ اس طرح خوشیوں بھرا ماحول سوگ میں تبدیل ہوگیا واقعہ پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔
اسی طرح کے ایک دوسرے واقعے میں بد قسمتی کے ان کا تعلق بھی میرے ہی قبیلے سے سٹی پولیس تھانے سے چند قدم پر بھرے بس میں دو مسلح افراد گھس کر نوجوان کو اس کی والدہ اور بہن کے سامنے بے دردی سے قتل کرکے فرار ہوگئے۔ بلوچستان میں تو دشمنی میں قتل غارت کے واقعات تو آئے روز ہوتے رہتے ہیں اور یہ ایک عام معمول تصور ہوتے ہیں۔ تو پھر کس چیز نے کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ ہے کہ ہماری دوستی دشمنی کے بھی کچھ اصول ہیں ان اصولوں کی پاسداری ہر قوم قبیلے پر لازمی ہے۔
ان اصولوں کی خاطر اپنی جان دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ خاص کر دشمنی میں جب کئی سالوں کی سرتوڑ کوشش کے بعد اچانک دشمن سامنے آ جائے لیکن اس کے ساتھ کوئی خاتون یا کوئی کم سن بچہ ان کے ہمراہ ہو تو دشمن کو بغیر کوئی گزند پہنچائے چلا جاتا تھا کہ پھر کبھی موقعہ آئے۔ اسی طرح کوئی خاتون دشمن کے پاس بھی چلی جاتی تھی تو فوری طور پر جنگ بندی کر دی جاتی تھی۔
یا سید بھی چلا جاتا تو اس طرح کا ردعمل سامنے آ جاتا تھا لیکن افسوس ہم نے اپنے تمام اصول روایات کو بھلا دیا جو کہ ہم سب کیلئے بہت بڑا نقصان ہے۔ اس طرح کا واقعہ اس سے قبل کم از کم ہمارے قبیلے یا برادری میں نہیں ہوا۔ مذکورہ واقعے نے مجھ سمیت تمام لوگوں کو حیران پریشان کر دیا ہے کہ اور سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔