Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Badetmadi Ki Fiza Kab Tak

Badetmadi Ki Fiza Kab Tak

بداعتمادی کی فضا کب تک

بلوچستان اسمبلی کے ممبران کو حلف اٹھائے ایک ماہ ہونے کو ہے لیکن ابھی تک کسی کو بھی وزارت کا قلمدان نہیں ملا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک مہینہ ہونے کو ہے ابھی تک وزیر اعلیٰ یا اتحادی حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ کس ممبر کو کونسی وزارت کا قلمدان دینا ہے۔

سننے میں آرہا سینیٹ کے انتخابات کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کس ممبر کو کونسی وزارت دی جائے یا نہیں۔ فی الحال سب کو بیٹا پیدا ہونے کی نوید دی جا رہی۔

آج کل اسمبلی ممبران کے ساتھ پترا نہ پتری کا کھیل کھیلا جارہا ہے سب ہی ممبران کو یہی باور کرایا جارہا ہے بیٹا ہی ہوگا یعنی من پسند وزارت آپ کی کنفرم ہے بس آپ کے علاؤہ کچھ ممبران کے سینیٹ الیکشن میں پھسل جانے کی وجہ سے یہ معاملہ التوا میں ڈال گیا ہے۔ اس طرح کے ڈائیلاگ سن کر کئی سال پہلے کا ایک منظر سامنے آگیا۔

ہوا یوں کہ مرحوم محمد خان جونیجو صاحب جب 1985 وزیر اعظم بنے تو خیر پور میرس کے ہمارے ایک عزیز جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں جونیجو صاحب کے ساتھ ان کی دعا سلام تھی۔ جب وہ شخص استا محمد اپنی ہمشیرہ کو دیکھنے آیا تو اس کے بھانجوں نے کہا کہ ماما ہم نے سنا ہے کہ آپ کے وزیراعظم کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں ہم گریجویٹ کرکے بے روزگار ہیں جونیجو صاحب سے کہہ کر ہمیں 17 گریڈ کی کوئی اچھی نوکری دلائیں۔

ماما نے کہا کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے میرا بچپن کا دوست ہے ابھی چلتے ہیں اسلام آباد۔ ایک نے کہا کہ ماما مجھے تو ایس ڈی ایم بنانا ہے دوسرے نے بھی ایس ڈی ایم ہی کا ڈیمانڈ کیا جبکہ تیسرے شخص نے کہا کہ مجھے تو کراچی ایئرپورٹ پر کسٹم آفیسر لگائیں۔ ایس ڈی ایم اس وقت اسسٹنٹ کمشنر ہی کو کہا جاتا تھا یعنی سب ڈویژنل میجسٹریٹ ماما نے سب کو بیٹا دینے کی خوشخبری دی تو ہم ماما کے ساتھ اسلام آباد کے لئے بذریعہ ریل روانہ ہوگئے۔ ہم تینوں نے اپنے لئے تھرڈ کلاس کی ٹکٹ لیں جبکہ ماما اس کے خدمت گزار لڑکے کے لئے پارلر کلاس سیٹ کروائے۔

راستے میں جس بھی اسٹیشن پر ٹرین روکتی تو ہم تینوں قلی کی طرح بھاگ کر ماما سائیں کے پاس پہنچ کر ان کا حال پوچھتے شاید انھیں کسی چیز کی ضرورت نہ ہو۔ جب راولپنڈی پہنچے تو بجائے پرائم منسٹر ہاؤس کے ماما نے ہمیں ہوٹل میں کمرے بک کرانے کا حکم دیا تو ماما کے لئے ہم نے وی آئی پی روم لیا اور اپنے لئے بغیر اے سی والا کمرہ لیا۔ جب صبح اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ جونیجو صاحب بیرون ملک دورے پر روانہ ہونے والے ہیں۔

اب کیا کریں جس پر ماما نے کہا کہ چند دنوں کی تو بات ہے ان کی واپسی تک بس یہی اسی ہوٹل میں رہتے ہیں۔ اس دوران ماما تینوں کو مختلف اوقات میں اکیلے اکیلے اپنے کمرے میں بلاتے تھے۔ مجھے بولا کر کہتا تھا کہ تم اپنی نوکری پکی سمجھو یہ جو میرا سگا بھانجا ہے یہ نا فرمان ہے نوکری سے انگوٹھا ہے جب دوسرے کو بلاتا تو اس سے کہتا کہ تم تو میراسگا بھانجا ہے نوکری کےحقدار تم ہو۔ اسی طرح تیسرے کو بلا کر کہتا ہے کہ یہ جو میرے بھانجے ہیں دونوں انتہائی نا لائق بد تمیز ہیں ان کے لئے تو نوکری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے نوکری تو آپ کے لئے ہے، وہ دنوں ملا ہیں جاکر مسجدوں کو آباد کریں شکل دیکھی ہے ایس ڈی ایم بنیں گے۔

تم میرےحیدری بھائی ہو نوکری تو تمھاری ہی ہے اس طرح ہم تینوں خوش تھے اور ہر ایک سمجھنے لگا نوکری تو صرف مجھے ہی ملے گی ہم خوش فہمی میں مبتلا رہ کر ہر ایک اپنی طرف سے خوب ماما کی خدمت میں پیش پیش رہا ایک دوسرے کو دھوکا دیتے رہے نتیجہ یہ ہوا کہ چار دن میں ہمارے پاس تمام پیسے ختم ہو گئے۔ محمد خان جونیجو کے وطن پہنچنے سے قبل ہم واپس گھر پہنچ گئے جبکہ ماما صاحب ہم سے ناراض ہوگئے کہ تم لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے تو مجھے اسلام آباد لاکر میری بےعزتی کرائی ہے، گھر آ کر ایک عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ ماما سائیں تو ہم تینوں کے ساتھ گیم کرتا رہا۔

میرے خیال میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان کے ساتھ

پترا نہ پتری

والا کھیل کھیلا جا رہا ہے

سینیٹ کے انتخابات ہونے دیں۔ الیکشن کے بعد جن کو ان کی من پسند وزارت نہیں ملتی ہے تو ان سے کہا جائے گا ہم نے وزارت کا ہی وعدہ کیا تھا یہ کب کہا تھا کہ آپ کو ہوم منسٹری دیں گے یا رونیو منسٹر بنائیں گے چلو بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح اب جن کو وزارت نہیں ملی تو ان سے یہ کہا جائے گا کہ ہم نے آپ کو کہا تھا کہ آپ کو خوش کریں گے ہم آپ کو بجٹ میں خوش کریں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ممبران اسمبلی پر یہ بد اعتمادی بد گمانیاں آخر کس وجہ سے پیدا ہوئی۔ اس کی تاریخ بہت طویل ہے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح بلوچستان سے سینیٹرز منتخب ہوتے رہے جس طرح ارکان اسمبلی کے ووٹ کی نیلامی ہوتی رہی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے بلوچستان میں پارٹیاں بدلنا اپنا ووٹ بیچنا تو عام سی بات ہے۔ میرے خیال میں یہ تو ہر دور میں ہوتا آیا ہے لیکن بولی لگنے کی باتیں حال ہی میں مشہور ہوئی ہیں جس سے نا صرف آج ان کا ساکھ مجروح ہوا ہے بلکہ پورے بلوچستان کا ساکھ مجروح کردیا گیا ہے۔

میاں محمد نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر پارٹی میں شامل بعض سرداروں قبائلی عمائدین نے میاں صاحب کو بلوچی پگڑی باندھنے کی کوشش کی تو جس طرح سے انھوں نے اس کو رفیوز کیا تو ٹی وی پر سب نے دیکھا اس سے ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری کیا عزت ہے اور لوگ ہم پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔

فصلی بٹیرے، یو ٹرن، ابنِ لوقت لوٹے کھوٹے چھانگا جن لوگوں پر نا جانے کیا کیا اصطلاح استعمال کی جاتی رہیں وہی لوگ آج ہمیں بے بھروسہ سمجھتے ہیں افسوس کی بات ہے کہ نہیں اس عمل کا ذمہ دار چند ارکان اسمبلی ہونگے لیکن سبکی سب کی ہوئی ہے بلکہ پورے بلوچستان کی ہوئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے گزشتہ سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا تھا جس طرح ہوا اس کو دوبارہ دوہرانے سے گریز کیا جائے اصول زبان قول کی پاسداری کرکے اچھے سچے مسلمان اور بلوچ ہونے کا ثبوت دینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان پر لگا لیبل دھل کر صاف ہو جائے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad