Quantum Technology, China Ki Agli Sanati Chalang
کوانٹم ٹیکنالوجی، چین کی اگلی صنعتی چھلانگ
چین گزشتہ ایک دہائی سے ٹیکنالوجی کے میدان میں جس تیزی اور استقامت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے، اس نے دنیا کو بارہا حیران کیا ہے۔ بیٹریوں، الیکٹرک گاڑیوں اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبوں میں اس کی کامیابیاں ثابت کرتی ہیں کہ یہ ملک نئی ٹیکنالوجی کو محض تحقیق کی سطح تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اسے بڑے پیمانے پر صنعتی طاقت میں بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اب یہی صلاحیت کوانٹم ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہے اور حالیہ پیش رفت نے دنیا کی توجہ خود بہ خود Hefei شہر کی جانب مبذول کر دی ہے، جہاں چین نے اپنا جدید ترین سپر کنڈکٹنگ کوانٹم کمپیوٹر "تیان یان-287" تعینات کیا ہے۔ یہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں بلکہ ایک مکمل صنعتی پراڈکٹ ہے، جو تحقیقاتی لیبارٹریوں سے نکل کر براہِ راست صنعتی اور کاروباری استعمال کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس آلے کی طاقت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مخصوص نوعیت کے مسائل کو دنیا کے بہترین سپر کمپیوٹرز کے مقابلے میں پچاس کروڑ گنا تیزی سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کوانٹم ٹیکنالوجی کے اس نئے باب نے نہ صرف چین میں ریسرچ اور انڈسٹری کے درمیان فاصلہ کم کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ٹیکنالوجیکل بالادستی کی نئی دوڑ بھی شروع کر دی ہے۔ چین کی کمپنی CTQG اور QuantumCTek نے اس مشین کے لیے دل کی حیثیت رکھنے والے ڈائیلیوشن ریفریجریٹر کو مسلسل اور مستحکم طور پر چلانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جو نہایت کم درجہ حرارت پر کوانٹم چِپس کو فعال رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک خودکار AI کیلیبریشن سسٹم بھی تیار کیا گیا ہے جو پیچیدہ کوانٹم سرکٹس کو نہایت درستگی اور رفتار کے ساتھ متوازن کرتا ہے۔ اس کامیابی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اب یہ کوانٹم کمپیوٹر چین کے کوانٹم کمپیوٹنگ کلاؤڈ سے جڑ کر دنیا بھر کے محققین اور اداروں کے لیے قابلِ رسائی ہوگا۔ نومبر 2023 سے اب تک اس پلیٹ فارم پر چھتیس ملین سے زائد افراد نے رسائی حاصل کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوانٹم ٹیکنالوجی اب ایک محدود سائنسی دائرے سے نکل کر عالمی معاشی نظام میں داخل ہو رہی ہے۔
چین کی آئندہ پانچ سالہ منصوبہ بندی میں کوانٹم ٹیکنالوجی، بایو مینوفیکچرنگ، دماغ-کمپیوٹر انٹرفیسز اور 6G جیسے شعبوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد محض نئی مصنوعات بنانا نہیں بلکہ اُن شعبوں میں عالمی لیڈر بننا ہے جو مستقبل کی معیشت کی بنیاد رکھیں گے۔ لیبارٹریوں اور صنعت کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فوٹونک کوانٹم پروسیسر بنانے والے اداروں نے اب ڈیزائن سے لے کر مکمل سسٹم انٹیگریشن تک ایک مکمل صنعتی سپلائی چین قائم کر لی ہے۔ شنگھائی کی CHIPX لیبارٹری اور TuringQ نے مشترکہ طور پر ایک تیز رفتار اور بڑے پیمانے پر پروگرام ایبل فوٹونک کوانٹم پروسیسر تیار کرکے عالمی سطح پر بہترین انعام حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ہی شینزن میں چین کی پہلی فوٹونک کوانٹم کمپیوٹر فیکٹری کی تعمیر بھی شروع ہے، جو سالانہ درجنوں مشینیں تیار کرنے کی صلاحیت رکھے گی۔ یہ پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ چین نہ صرف تحقیق میں بلکہ صنعتی پیمانے پر بھی کوانٹم ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔
کوانٹم ٹیکنالوجی کی افادیت صرف کمپیوٹنگ تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا اطلاق اب بجلی کے نظام، خود مختار پارکنگ، طبی شعبے اور بیٹری مینو فیکچرنگ جیسے عملی میدانوں میں بھی نظر آنے لگا ہے۔ Hefei کے 220 کلو وولٹ سب اسٹیشن میں تمام انتظامی اور آپریشنل خدمات کوانٹم اینکرپشن کے ذریعے چل رہی ہیں، جو سائبر سکیورٹی میں ایک نئی جہت پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح TuringQ نے کار پارکنگ کے لیے ایک کوانٹم سے متاثر الگورتھم تیار کیا ہے جو گاڑیوں کے انتظار کے وقت میں نمایاں کمی لاتا ہے اور بڑے پارکنگ لاٹس میں موثر آپریشن کو ممکن بناتا ہے۔ علاوہ ازیں، کوانٹم سینسنگ کے ذریعے بیٹریوں کے خام مال کی جانچ میں انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ CIQTEK کا کوانٹم میگنیٹک امپیوریٹی اینالائزر صرف پانچ منٹ میں اس مواد کی جانچ کر لیتا ہے جس کے لیے روایتی مشینوں کو کہیں زیادہ وقت اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔ چین کی بڑی بیٹری ساز کمپنیاں CATL اور Gotion پہلے ہی اس ٹیکنالوجی کو اپنا چکی ہیں، جو اسے صنعتی پیمانے پر مزید اہم بنا دیتی ہے۔
یہ تصویر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ چین نہ صرف کوانٹم ٹیکنالوجی کی بنیادی تحقیق پر توجہ دے رہا ہے بلکہ اسے ایسے عملی اور صنعتی ماڈلز میں تبدیل کر رہا ہے جو روزمرہ زندگی، کاروبار، توانائی، صحت اور ٹرانسپورٹیشن سمیت مختلف شعبوں میں فوری فائدہ فراہم کر سکتے ہیں۔ کوانٹم مگنیٹومیٹری کے ذریعے دل کی دھڑکنوں اور خون کی حرکت کا باریک ترین مطالعہ ممکن ہو چکا ہے، جس سے دل کی بیماریوں کی قبل از وقت تشخیص ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس مضبوط سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے جو چین نے گزشتہ برسوں میں سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر کی ہے۔ بیجنگ اکیڈمی آف کوانٹم انفارمیشن سائنسز کے محققین کے مطابق ریسرچ اور کمرشلائزیشن کے درمیان تعلق اب پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے اور یہی ہم آہنگی اس انقلاب کی رفتار کو اور بڑھا دے گی۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کوانٹم ٹیکنالوجی چین کے لیے ایک ایسا میدان بن رہی ہے جس میں وہ آنے والے برسوں میں عالمی معیشت کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف چین کی صنعتی اور تکنیکی خود کفالت کو بڑھا رہی ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے جس میں کمپیوٹنگ، سکیورٹی، صحت اور توانائی جیسے اہم شعبے بنیادی تبدیلیوں سے گزریں گے۔ دنیا جس تیزی سے ڈیجیٹل اور تکنیکی ترقی کی جانب بڑھ رہی ہے، اس میں چین کا یہ کردار نہ صرف اپنی معیشت کے لیے بلکہ عالمی ٹیکنالوجی کے توازن کے لیے بھی فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ کوانٹم ٹیکنالوجی کی یہ پیش رفت ہمیں اس آنے والے دور کی جھلک دکھا رہی ہے جس میں رفتار، درستگی اور طاقت کے نئے معیارات متعین ہوں گے۔ چین نے اس دوڑ میں ایک مضبوط آغاز کر لیا ہے اور آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ ٹیکنالوجیکل چھلانگ دنیا کی سائنس، صنعت اور معیشت کو کس نئی سمت میں لے کر جاتی ہے۔

