NCCIA
این سی سی آئی اے
پاکستان میں جب بھی کسی نئے ادارے کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کے ساتھ امیدیں بھی جڑی ہوتی ہیں اور خدشات بھی۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی، جسے عام طور پر این سی سی آئی اے کہا جاتا ہے، کا نام حالیہ عرصے میں سوشل میڈیا، سیاسی مباحث اور عوامی گفتگو میں غیر معمولی طور پر سامنے آ رہا ہے۔ بعض حلقے اسے سائبر جرائم کے خلاف ایک ضروری اور جدید ادارہ قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اسے "این سی سی آئی اے مافیا" جیسے الفاظ کے ساتھ یاد کر رہے ہیں۔ یہ اصطلاح دراصل ایک تاثر، ایک الزام اور ایک خوف کی عکاس ہے جو ریاستی طاقت، اختیارات کے استعمال اور عام شہری کی آزادیوں کے گرد گھومتا ہے۔ اس بحث نے ایک بار پھر یہ سوال زندہ کر دیا ہے کہ طاقتور اداروں کی حدود کہاں تک ہونی چاہئیں اور ان پر نگرانی کا نظام کتنا مضبوط ہے۔
این سی سی آئی اے کے قیام کا بنیادی مقصد سائبر کرائم، آن لائن فراڈ، ہیکنگ، ڈیجیٹل بلیک میلنگ اور ریاست مخالف پروپیگنڈے سے نمٹنا بتایا جاتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جہاں دنیا ڈیجیٹل ہو چکی ہے، کسی بھی ریاست کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ سائبر اسپیس کو نظرانداز کرے۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قانون کے نفاذ اور اختیارات کے استعمال کے درمیان لکیر دھندلی ہو جائے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بعض کارروائیاں شفافیت سے عاری نظر آتی ہیں، گرفتاریوں اور تفتیش کے طریقۂ کار پر سوال اٹھتے ہیں اور یوں یہ ادارہ عوام کی نظر میں ایک خوف کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ "مافیا" کا لفظ اسی خوف اور بداعتمادی کا اظہار ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ خود کو ایک غیر مرئی مگر طاقتور نظام کے سامنے بے بس محسوس کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے اس بیانیے کو مزید تقویت دی ہے۔ مختلف واقعات، سچے یا جھوٹے دعوے اور ذاتی تجربات جب ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں تو ایک اجتماعی تاثر جنم لیتا ہے۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ این سی سی آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے سائبر قوانین کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے اور عام شہری کو یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کس حد تک محفوظ ہے۔ دوسری طرف سرکاری مؤقف یہ ہے کہ یہ سب الزامات بے بنیاد ہیں، ادارہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کر رہا ہے اور سائبر کرائم جیسے پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ ان دونوں بیانیوں کے درمیان عام آدمی الجھن کا شکار ہے، جو نہ مکمل طور پر اداروں پر اعتماد کر پا رہا ہے اور نہ ہی ڈیجیٹل دنیا میں خود کو آزاد محسوس کرتا ہے۔
یہ بحث محض این سی سی آئی اے تک محدود نہیں بلکہ یہ پاکستان کے مجموعی حکمرانی کے نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جب بھی کسی ادارے کو وسیع اختیارات دیے جاتے ہیں، تو اس کے ساتھ جوابدہی اور نگرانی کا مضبوط نظام بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر عوام کو یہ یقین نہ ہو کہ ان کے حقوق محفوظ ہیں، تو قانون نافذ کرنے والے ادارے خواہ کتنے ہی نیک مقاصد کے لیے کیوں نہ بنائے جائیں، بداعتمادی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ "مافیا" جیسے الفاظ اسی بداعتمادی کی پیداوار ہیں، جو اس احساس کو ظاہر کرتے ہیں کہ طاقت چند ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہے اور عام شہری کی آواز کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
آخرکار سوال یہ نہیں کہ این سی سی آئی اے واقعی ایک "مافیا" ہے یا نہیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم ایک ایسے نظام کی طرف کیسے بڑھیں جہاں قانون کی عمل داری اور شہری آزادیوں کے درمیان توازن قائم ہو۔ اگر ادارے شفاف ہوں، قوانین واضح ہوں اور احتساب کا عمل مضبوط ہو تو نہ ایسے القابات جنم لیں گے اور نہ ہی خوف کی فضا قائم ہوگی۔ این سی سی آئی اے سے جڑی حالیہ بحث دراصل پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ سائبر قوانین، ادارہ جاتی حدود اور انسانی حقوق کے حوالے سے سنجیدہ مکالمہ شروع کرے۔ یہی مکالمہ اس بات کا تعین کرے گا کہ ہم ڈیجیٹل دور میں ایک بااعتماد ریاست بن پاتے ہیں یا نہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو "مافیا" جیسے تاثر کو حقیقت بننے سے روک سکتا ہے۔

