Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Salsaal (1)

Salsaal (1)

صلصال (1)

عبدالرحمٰن۔

امید ہے تم خیریت سے ہوگے اور میرے خطوط تواتر سے مل رہے ہوں گے۔

آج کے خط میں ہم اس چیز کے بارے میں بات کریں گے جسے ہم سب جانتے ہیں۔ دیکھ سکتے ہیں۔ چھو سکتے ہیں اور یہیں پر ہماری پیدائش ہوئی ہے یعنی کہ ہماری زمین۔ ارض۔

لیکن ارض آخر کہتے کسے ہیں؟

ارض کا مطلب ہے خشک اور سخت مٹی۔ جس پر قدم رکھ کر کھڑا ہوا جا سکے۔ لیکن زمین یا ارض تو ایک بڑا ہی سادہ سا لفظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ جس سخت زمین پر ہم رہتے یا کھڑے ہوتے ہیں یا جو زمین ہمیں ہزاروں میل دور اپنے نیچے پھیلی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس کی تعریف اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تکنیکی زبان میں یہ ارض کچھ معدنیات، گیسز، لیکوڈز اور کچھ آرگینک مادّوں organic materials کا ایک مجموعہ ہے۔ نامیاتی مادے جن کے بغیر میں اور تم کبھی بھی یہاں نہ ہوتے۔

چلو پہلے ارض کے نام کا دنیا کی زبانوں میں تجزیہ کرتے ہیں۔ ویسے تو اس کے بہت سے نام ہیں لیکن اس کا ایک نام ایسا ہے جس کی جھلک آپ کو تقریباً ہر زبان میں نظر آتی ہے اور وہ ہے عربی لفظ ارض۔ اب چاہے انگلش میں وہ ارتھ ہو۔ جرمن میں Erde ایرڈا ہو۔ اور ڈینش میں یورڈن jorden۔ جیسے ان پرانی زبانوں میں ارض کا لفظ ملتا جلتا ہے اسی طرح اس کی تعریف بھی ایک ہی جیسی ہے چلنے کے قابل ہر وہ حصہ جو ہوا اور پانی سے الگ ہو۔ وہ ارتھ ہے۔ زمین ہے۔

عبدالرحمٰن۔

یہاں ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ ارض کہاں تک پھیلی ہوئی ہے؟

پاکستان، سعودی عرب، انڈیا، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ وغیرہ۔ وغیرہ۔ کیا بس یہ ارض ہے؟ جب اللہ تعالیٰ سورہ شمس میں قسم اٹھا رہے ہیں کہ قسم ہے زمین (ارض) اور اس کے پھیلا دیے جانے کی۔ تو کیا یہاں اللہ تعالیٰ بس ان چھوٹے بڑے تقریباً سو کے قریب ممالک کی قسم اٹھا رہے ہیں؟ جس زمین پر اس وقت میں اور تم رہ رہے ہیں۔ اس کی نوے فیصد چٹان بے سولٹ Besalt سے بنی ہوئی ہیں۔ بے سولٹ ایک طرح کا چٹان یا پتھر ہے جیسے گرینائیڈ یا سنگ مرمر وغیرہ ہوتا ہے۔

اس کو سنگِ سیاہ یا Black Stone بھی کہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تم نے رات کے وقت چودھویں کا چاند بھی دیکھا ہوگا۔ کیا کبھی تم نے سوچا کہ اس پر نظر آنے والے یہ کالے دھبے کیا ہیں؟ چاند کے ان کالے دھبوں کو لونر مارکس Lunar Marks کہتے ہیں اور یہ دھبے دراصل اسی بے سولٹ Besalt کے وسیع اور عریض پھیلے ہوئے میدان ہیں۔ ہاں۔ اسی بے سولٹ Besalt کے جو ہماری زمین یا ارض میں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تکنیکی طور پر چاند کی زمین بھی ارض ہی کہلائے گی۔

چاند کے علاوہ پاکستان میں فجر اور مغرب کے وقت ایک بہت چمکدار سا ستارہ نظر آتا ہے جو ایک ستارا نہیں ہے بلکہ ایک سیارہ ہے جسے وینس کہتے ہیں۔ 70's اور 80's میں روس نے اس سیارے پر پانچ مشن بھیجے تھے اور پتہ یہ چلا کہ اس سیارے پر درجنوں کلومیٹر موٹے بادلوں کی اک تہہ ہے جس کے نیچے اسی فیصد وینس اسی بے سولٹ Besalt کا بنا ہوا ہے جس کی ہماری اپنی زمین ہے یعنی کہ تکنیکی طور پر وینس بھی ارض ہی کہلائی جا سکتی ہے۔

بادلوں سے ڈھکا ہوا ایک سیارہ مریخ بھی ہے جس پر پچاسوں مشن جا چکے ہیں۔ وہ بھی ارتھ کی تعریف پر پورا اترتا ہے بلکہ اگر ہماری زمین اور مریخ کا مقابلہ کیا جائے تو ہمارے درمیان فرق صرف پانی اور نامیاتی مادوں کا ہے۔ ہماری زمین پر یہ دونوں چیزیں موجود ہیں جبکہ مریخ پر نہیں ہیں۔

یقیناََ تم جوپیٹر Jupiter کے متعلق بھی جانتے ہوگے۔ یہ ہمارے سورج کے سسٹم کا سب سے بڑا اور ایک بہت خوبصورت سیارہ ہے۔ ایسا سیارہ جس پر ہر وقت طوفان چلتے رہتے ہیں۔ رات کے وقت ہمارے آسمان پر صرف ایک ہی چاند طلوع ہوتا ہے جبکہ جوپیٹر کے آسمان پر 79 چاند طلوع ہوتے ہیں اور یہ سب کے سب چاند ارض کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔

چلو عبدالرحمٰن۔

اب سورج کے سسٹم سے ہی باہر چلتے ہیں۔ اب تک 4984 ایسے سسٹمز مل چکے ہیں جو بے سولٹ Besalt کے بنی ہوئے ہیں جنہیں نام بھی دئیے جا چکے ہیں اور ابھی 6590 مزید ایسے حصے نظر آ رہے ہیں جو اسی بے سولٹ Besalt کے بنے ہوئے ہیں لیکن ابھی انہیں نام دینا باقی ہے۔ ان حصوں میں سے کوئی حصہ ہم سے بہت چھوٹا ہے اور کوئی ہم سے بالکل ملتا جلتا ہے۔ بلکہ شاید تم کو یاد ہوگا کہ 2014 میں کائنات کا ایک حصہ دریافت ہوا تھا جو بالکل ہماری اپنی زمین جیسا، ہماری دنیا جیسا، ہماری اپنی زمین جیسا۔ اس کو Kepler 186 کا نام دیا گیا۔

خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ارض کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہے؟

اب تم کو احساس ہوا کہ ارض اور اس کو پھیلانے والے کی قسم کتنی بڑی قسم ہے؟

جب جب ارض میں سے نکلنے، ارض میں جانے اور ارض کے متعلق کوئی بھی بات ہوگی وہ ارض اس پوری کائنات میں کہیں بھی اور کسی بھی کونے میں موجود ہو سکتی ہے۔ یہی وہ ارض تھی جسے سورہ الانبیاء کے مطابق آسمانوں سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ جو سورہ البقرہ کے مطابق آسمانوں سے پہلے شکل میں آئی تھی۔ سورۃ البقرہ کے مطابق اس کی تخلیق آسمانوں سے پہلے ہوئی تھی جسے سورۃ حامیم سجدہ کے مطابق دو دن میں تخلیق کیا گیا تھا۔ جسے سورۃ النازیات کے مطابق چاروں طرف پھیلا دیا گیا تھا اور پھر جس میں سورۃ حامیم سجدہ کے مطابق پہاڑوں کو رکھا گیا تھا۔ وہ پہاڑ جو ہر معلوم ارض میں موجود ہیں۔

مریخ کی زمین پر ہماری زمین سے کئی گنا بڑے پہاڑ موجود ہیں۔ سورۃ حامیم سجدہ کے مطابق ارض میں رہنے والوں کے لیے ان کی ارض میں برکتیں بھی رکھی گئی ہیں جو ہماری ارض میں بھی ہمارے لیے موجود ہیں اور میرا پورا یقین ہے کہ اس کائنات میں جہاں جہاں ارض پھیلی ہوئی ہے وہاں وہاں اس میں اس کے رہنے والوں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق برکتیں بھی موجود ہوں گی۔

Check Also

Water Futures Are On Sale

By Zafar Iqbal Wattoo