Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Phir Se Mask

Phir Se Mask

پھر سے ماسک

لو بھئی، دنیا نے پھر سے ماسک پہن لیا۔ کرونا کے بعد اومیکرون نے انسانیت کو ایک بار پھر سے ما سک پہننے پر مجبور کر دیا ہے، نیا خوف، نیا ہراس، نئی سراسیمگی۔ کوئی کہتا ہے اللہ کا عذاب ہے، کوئی کہتاہے کیمیائی جنگ ہے، کسی نے بیماری سے بچنے کے لیے پہنا تو کسی کے دوستوں نے اس کو ٹوک دیا۔ کچھ جاہل سمجھے جانے کے خوف سے پہننے لگے تو کسی کو مذہب کا حوالہ دے کر پہنایا گیااور بس پھر کیا؟ وہی ماسک ہے اور وہی فاصلہ ہےمگر اس ظاہری ماسک سے پہلے بھی تو ہم ماسک ہی لگا کر گھومتے تھے۔

یہ آسمانی رنگ کا ماسک کم از کم چہرے پر چڑھانظر تو آتا ہے، منافقت کا ماسک تو ان دیکھا ہی رہا۔ زندگی میں سچائی اور جھوٹ یو ں غلط ملط ہوا کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ حقیقت کیا اور ڈرامہ کیا ہےماسک ہی ماسک ہیں۔ انسان کے جسم مجسمے اور ربورٹ لگتے ہیں، کوئی بھی اصلی نہیں۔ نہ جانے کب، کون، کہاں اپنا چولہ بدل کر حیران کر دے۔ دوست کا ماسک لگائے دشمن کسی بھی لمحے پشت میں خنجر گھونپ دے گا۔

ہمدرد کسی بھی وقت کپڑے کے ماسک کے ساتھ رویے کا ماسک بھی بدل لے۔ اصلیت کیا ہیں، اداکاری کیا ہے؟ سمندروں جیسے لوگ، اوپری اوپری جذبات، گہرا پیار، شدید نفرت، مگر تہہ میں صرف تاریکی اور سکوت، نہ روشنی، نہ تلاطم، ظاہری کشش ہی سب کچھ بن گئی ہے من میں کوئی نہیں جھانکتا۔ ادب آداب اور ریا کارانہ چاپلوسی یوں باہم شیر و شکر ہوئے ہیں کہ گویا ایک جیسے لباس میں ملبوس دو انسان ماسک پہن کر کھڑے ہوں، نہ ماسک اترے گا نہ حقیقت واضح ہو گی۔

ہمدردی کی آڑ میں بغض بھی کھڑا ہے، چہرہ چھپائےمگر مچھ کے آنسو بہا رہا ہے، لیکن ماسک کے اندر ہنس رہا ہے، کسی کو کیا پتہ چلے گا، ما سک ہے نا، چہرے پرپیاز کی طرح ہیں، ہر تہہ کے بعد ایک نئی تہہ، ہر پرت کے بعد ایک پرت، ہر ماسک کے نیچے ایک اور ماسک اور ایک زہریلا عرق رگوں میں لئے گھومتے ہیں۔ آپ کی غفلت کے منتظر ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ عمریں گزار رہے ہیں ان تمام معاملات میں ہم دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں جہاں ہمیں فائدہ ہے لیکن دل میں اپنے ساتھی کے لیے بغض دُبا کے رکھا ہے۔

موقع پا تے ہی کسی بھی لمحہ یک دم بغض نکالیں گے اور دوسرے کے لیے ایسی جلن پیدا کر دیں گے جو تا عمر اس کو اذیت میں رکھے گی، آنکھیں سرخ کر دے گی۔ دل کی آنکھیں، یہ ماسک کسی نامعلوم بیماری سے بچنے کے لئے تو اب 2 سال سے چہرے پر چڑھا ئے گئے ہیں۔ ریا کاری کے ماسک تو ہم سالوں سے چڑھائے پھر رہے ہیں اور اتنے عادی ہو گئے ہیں اب تو وہ ہمیں نظر بھی نہیں آتے۔ کوئی بھولا بھٹکا صا ف گو انسان ہم سے ٹکرا بھی جائے تو ہم اسے بد زبان کہہ کر کنارا کر لیتے ہیں۔

برائی سے روکنے والادوست ہی سب سے بڑا دشمن لگتا ہے، حاسد محسوس ہوتا ہے، اس میک اپ کے ماسک کے نیچے ہمارے چہرے پہلے سے ہی نفرت کی بیماری کا شکار ہو کر بوسیدہ اور تباہ ہو چکے ہیں، نیلا ماسک تو سمجھو پردہ در پردہ بن گیا ہے، چہروں کے ماسک کے پیچھے دماغوں میں برائی بھری ہے مگر ہم صرف سجا سنورا چہرہ دیکھتے ہیں۔ اپنی بد اعمالیوں پر نیکیوں کے ماسک سجا کر سامنے آتے ہیں۔

رشوت کے پیسوں کو ماسک پہنا کر میلاد مناتے ہیں، چوری اور غبن کے پیسوں کو ماسک چڑھا کر حج اور عمرہ کرتے رہتے ہیں، مظلوموں کی زمینوں پر قبضہ کر کے اسے مسجد کا ماسک پہنا دیتے ہیں۔ اصل خطرہ کرونا اور اومیکرون سے نہیں ہے، اصل خطرہ حفاظتی ماسک کی تہوں کے نیچے ہے، وائرس تو اس ماسک سے رک جائے گا۔ ریا کاری کا غذاب مگر ہمیں جھیلنا پڑے گا۔ بیماری کی روک تھام تو کپڑے کے اس نیلے ماسک سے ہو جائے گی مگرجھوٹ کا وائرس ہمیں مار ڈالے گا۔

رشوت زدہ نظام ہماری ہڈیوں کو کھوکھلا کر دے گا، نیلا ماسک بے شک پہن لیں مگر یہ جھوٹ اور نفرت کا ما سک اتار دیں، ورنہ یہ تہہ در تہہ ماسک انسانیت اور ضمیر کا دم گھونٹ دیں گے، پھر انسان نہیں رہیں گے، محض ماسک رہ جائیں گے۔

سورہ الحشر کی آیت نمبر 11 میں رب کائنات کہتا ہے:

کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہونگے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے، لیکن اللہ تعالٰی گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعًا جھوٹے ہیں۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad