Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Perfect Ecosystem (3)

Perfect Ecosystem (3)

پرفیکٹ ایکو سسٹم (3)

اور سنو۔۔ عبدالرحمان

جودی پہاڑ سے پونے سات ہزار کلو میٹر دور چین میں آتے ہیں جہاں چائنیز مائیتھولوجی میں گونیو Gun. Yu کی ایک کہانی ہے کہ اس زمانے میں پوری دنیا ایک سیلاب میں ڈوب گئی تھی اور پھر گون Gun نے دوبارہ سے دنیا کو آباد کرنا شروع کیا۔۔

عبدالرحمان! اور دیکھتے ہیں؟

جودی بہار سے دو ہزار کلومیٹر دور عراق جہاں 1906 میں کھدائی کے دوران ایک بہت قدیم تختی The Fluent Tablet ملی تھی، اس میں ایک بادشاہ زیو سدرا کا ذکر ہے کہ جو شدید طوفان اور ایک عظیم سلاب میں کشتی لے کر نکلا تھا اور اس کی عمر بہت لمبی تھی اور تم کو سورہ انکبوت کی چودھویں آیت یاد ہے کہ جس میں ایک نبی کی طویل زندگی کا ذکر بالخصوص طور پر ہے کہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور ساڑھے نو سو سال تک سیلاب کا واقعہ لکھا ہوا ہے۔۔ اس تختی کا نام ہے The Fluent Tablet اس میں ایک انسان کا ذکر ہے جسے خدا کی طرف سے حکم ملتا ہے کہ ایک بہت بڑا سیلاب آنے والا ہے لہٰذا تم ایک بڑی سی کشتی بناو۔

اب تم کو جانے پہچانے فلسفی افلاطون کی ایک کتاب کے متعلق بتاتا ہوں جو اس نے آج سے دو ہزار سال پہلے لکھی تھی جس میں یونان کی مائیتھولوجی کے مطابق پومیٹھیاس Prometheus ایک شخص دیوکالین Deucalion کو حکم دیتا ہے کہ ایک بڑی سی کشتی بناؤ کیونکہ پوری دنیا میں سیلاب آنے والا ہے۔۔

ایران میں دنیا کے قد یم ترین مذاہب میں سے ایک مذہب زرتشت تھا یعنی زرویسٹریانیزم Zoroastrianism جو آج بھی پارسی مذہب کی شکل میں زندہ ہے اس میں بھی ایک داستان ملتی ہے کہ کس طرح مژدہ Ahura Mazda نے ایک پتھر سے پانی نکالا جس سے پوری دنیا سیلاب میں ڈوب گئی۔۔

ایک عظیم سیلاب کی کہانی جودی پہاڑ سے چودہ ہزار کلومیٹر دور ہوائی جزائر کی میتھالوجی میں بھی ملتی ہے اور پھر اس کے بھی با لکل اُلٹی سمت یعنی جودی پہاڑ سے بارہ ہزار کلومیٹر دور آسٹریلیا کے ایب اورجنل لوگوں کے ہاں بھی۔

مختصر یہ کہ پوری دنیا میں تین سو کلچرز ایسے ہیں جہاں آپ کو اس سیلاب کی کہانی مل جاۓ گی۔

ایک سوال ابھی جواب طلب ہے کہ آخر اس سیلاب کے پوری دنیا پر آنے کی وجہ کیا تھی؟

یہ بات سچ ہے کہ اس کی وجہ قرآن پاک میں نہیں ملتی۔۔ یہ بات بک آف اینوخ (حضرت ادریس) کی کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھی ہوئی ہے اور وہ یوں ہے کہ جب حضرت نوح کی تعلیمات کے باوجود دنیا میں بے حد گمراہی پھیل گئی اور اس وقت اللہ نے فرشتے کو بھیجا کہ نوح کو میری طرف سے بیغام پہنچا دو کہ اب وہ خود کو بچا لیں کیونکہ پوری دنیا پر ایک تباہی آنے والی ہے ایک بہت بڑا سیلاب جو پوری دنیا پر پھیلے گا اور ان میں سے تمام ناپاک چیزوں کو ختم کرے گا اور پانی سے زمین کو پاک کرے گا اور نوح سے کہو کہ اس سیلاب سے بچے کیونکہ اسی کی اولاد سے دنیا بڑھے گی اور یہ بھی بتایا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

بک آف اینوخ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک زمانے میں جو ادریس سے پہلے گزرا تھا، دو سو شیاطین ماؤنٹ ہرمن پہاڑ پر اکٹھے ہوئے اور ان میں سب سے بڑے کا نام ازازیل تھا اور یہ بات تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ ازازیل دراصل ابلیس کا پہلے آسمان پر نام تھا اور اس ازازیل نے باقیوں سے کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ تم اس کام کو کرنے سے پیچھے ہٹو گے جسے کرنے کا ہم نے عہد دیا ہے اور اس کی سزا مجھ اکیلے کو ملے گی لیکن پھر باقیوں نے با آواز بلند ایک مرتبہ پھر سے انسان کو گمراہ کرنے کے اس عہد کی تجدید کی اور اس کے بعد وہ دو سو شیطان انسانوں کے پیچھے لگ گئے اور انہیں مختلف چیزیں کرنا سکھائیں مختلف علوم سکھائے اپنی خلقت تبدیل کرنا سکھائیں، تصویریں بنانا سکھائیں، شبیہیں بنانا سکھائیں [میرے ذہن میں وہ غاروں میں بنی پینٹنگز آجاتی ہیں جن کے متعلق لکھا ہے کہ جیسے کسی نے ان غاروں میں ایک ڈ رائنگ بنائی تھی اور بعد میں کئی مرتبہ ان ڈرائنگز پر فنگر ٹریسنگ کی، جیسے کہ ڈرائنگز سیکھی جا رہی ہوں۔ ]

اور پھر نوحؑ کی قوم کا وہ واقعہ کہ کیسے شیاطین نے ان کے مرے ہوئے نیک بڑوں کی شبیہیں بنا کر انہیں دی کہ جس سے بالاخر وہ بت پرستی میں مبتلا ہونا شروع ہو گئے۔

اگست 1908 میں آسٹریا کے اندر کھدائی کے دوران ایک چھوٹا سا مجسمہ ملا تھا چونے کے پتھر سے بنا ایک معمولی سا مجسمہ جس پر سرخ مٹی پھیری گئی تھی یہ ایک عورت کا مجسمہ تھا لیکن نہ ہی اس کا سر تراشنے پر کوئی خاص توجہ دی گئی تھی اور اس کے پاؤں تو تھے ہی نہیں۔۔ لیکن انسانی جسم کے جنسی اعضاء سے متعلق ہوتے ہیں انہیں بالخصوص بڑی ہی وضاحت کے ساتھ تراشا گیا تھا اور اس عجیب سے مجسمے کو کسی نے آج سے پچیس ہزار سال پہلے بنایا تھا۔ آج بھی یہ چھوٹا سا اور عجیب و غریب سا مجسمہ وینس کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔

لیکن آسٹریا سے باہر کئی دوسری کھدائیوں میں دھیرے دھیرے مزید مجسمے ملنا شروع ہوئے با لکل اسی ڈیزائن کے ساتھ عورتوں کے مجسمے زیادہ تر کے سر غائب، چہرہ غائب، پاؤں غائب۔۔ انہیں نے بناتے وقت جسم کے صرف انہی اعضاء پر فوکس کیا گیا جن کی افزائش نسل کے دوران اہمیت ہوتی ہے بلکہ ایک مجسمے جس کا نام وینس آف میک ڈیلائنن venus of magdalenian ہے اس میں تو پورے کا پورا فیمیل ریپروڈکٹیف سسٹم واضح کیا گیا ہے۔ اب تک اس وینس سیریز کے دو سو مجسمے مل چکے ہیں جن میں سب سے پرانا مجسمہ وینس آف ہالی فیلز Venus of Hohle Fels جو آج سے پینتیس ہزار سال پہلے بنائے گیا تھا۔

وہی ڈیزائن زیادہ تر کے سر غائب پاؤں غائب بس ایک حاملہ عورت کا جسم، ان فیکٹ ان میں سے ایک مجسمہ تو بلوچستان کے مہرگڑھ سے بھی ملا تھا ان مجسمے کے تراشنے والوں نے ان کا کیا نام رکھا تھا؟ کوئی نہیں جانتا لیکن ان سب کا ڈیزائن ایک ہی جیسے ہیں، لیکن جو بات سب سے زیادہ حیران کون ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پرانا مجسمہ وینس آف ہالی فیلز کسی نے پینتیس ہزار سال پرانی جرمنی میں تراشا تھا اور سب سے ریسنٹ recent ملا مجسمہ اس کے 24 ہزار سال بعد اس نے سوئٹزر لینڈ میں تراشا گیا تھا، جو بات سب سے زیادہ حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ 24 ہزار سالوں میں یہ مجسمے بغیر کسی رد و بدل کے با لکل ایک ہی جیسے ڈ یزائن پر تراشے جاتے رہے ہیں جو ڈیزائن 35 ہزار سال پرانے جرمنی کے مجسمے میں تھا وہی ڈ یزائن 14 ہزار سال پہلے روس سے ملے مجسمے کا تھا یعنی ان ہزاروں سالوں میں ان کے تراشنے والوں نے ان کا ذرا سا بھی ڈیزائن نہیں بدلا۔۔ ہر چہرہ غائب، ہر ہاتھ غائب، ہر ایک کے پاؤں غائب۔ فرانس کی ایک غار سے ایک تھوڑا سا مختلف وینس فگر ملا ہے جسے وینس آف لاؤسل Venus of Laussel کہتے ہیں جو دراصل ایک مجسمہ نہیں ہے بلکہ ایک ریلیف ہے یعنی چٹان میں تراشا ہوا ایک فگر اور اس میں صرف اتنا فرق ہے کہ اس عورت کے ہاتھ میں ایک سینگ تھا اور یہ وہ دوسرا وینس فگر ہے جس پر سرخ مٹی سے لیپ کیا گیا تھا۔

ان میں سے کچھ وینس فگر ایسے بھی ہیں جو قبر میں دفن تھے اور جیسے کسی نے انہیں جان بوجھ کر توڑا ہو کیونکہ ان پر تیز دھار پتھر چلایا گیا ہوا ہے ان فگرز کو چوبیس ہزار سال تک ایک ہی ڈیزائن پر تراشا جاتا رہا۔

Check Also

Jan Bohat Sharminda Hain

By Cyma Malik