Perfect Ecosystem (2)
پرفیکٹ ایکو سسٹم (2)
عبدالرحمان!
چلو ہم خود اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ستاسی لاکھ سپیشز میں سے سمندری جانداروں کو تو نکال دیں کیونکہ وہ پانی میں رہ سکتے ہیں انہیں کشتی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سمندروں کے اندر ابھی تک تقریبا دو لاکھ سپیشیز دریافت کر لی گئی ہیں [ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ سپیشیز کا دریافت ہونا ابھی باقی ہے].
دوسری چیز حشرات الارض یعنی کہ کیڑے مکوڑے؟
کیڑے سانس نہیں لیتے، ان کے پھیپڑے نہیں ہوتے، بلکہ ان کے جسم ماحول سے directly oxygen حاصل کرتے ہیں اور اسی لیے تو کیڑے مکوڑے مٹی پانی اور کیچڑ کے اندر بھی زندہ رہ لیتے ہیں۔ انہیں ہوا کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس وقت ساٹھ لاکھ سپیشیز تو صرف اور صرف ان کیڑے مکوڑوں ہی کی ہیں۔۔
اس کے باوجود باقی کے جانور کشتی میں کیسے آئے؟
تم نے ٹیکسونامی taxonomy کے علم کے مطابق سنا ہوگا۔ بائیولوجی میں اس دنیا کی تمام سپیشیز کو مختلف کیٹیگریز میں رکھا جاتا ہے جسے جانداروں کی رینک کرنا کہتے ہیں اور اس علم کا نام ٹیکسونومی ہے۔
جب جانداروں کو ان کے ڈیزائن اور مزاج کے اعتبار سے رینک یا ارینج کرنا ہو تو کچھ اس طرح سے سٹڈی کی جاتی ہے:
سب سے پہلا رینک لائف کا ہے۔
دوسرا رینک ہے ڈومین یعنی کہ وہ جاندار ایک خلیے والا ہے یا اس کے جسم میں ایک سے زیادہ خلیے۔
تیسرا رینک ہے کنگڈم یعنی کہ وہ جاندار جانور ہے پودا ہے فنگس ہے، پودا ہے وغیرہ۔
چوتھا رینک ہے فائلم یعنی کہ اس جاندار کا باڈی پلان کیسا ہے اس جاندار میں ریڑ ھ کی ہڈی ہے یا نہیں۔
ریڑھ کی ہڈی والے جاندار تمہیں اپنے ارد گرد ہر طرف نظر آئیں گے بلی، شیر، ریچھ، طوطے، میں اور تم سب پانچویں رینک ہے۔ یعنی میملز۔
مختصر یہ کہ اینیمل کنگڈم کے جانور تو ان میں سے بھی صرف ریڑ ھ کی ہڈی اور سانس لینے والے جانور چاہیے لیکن ان جانوروں میں سے بھی کمی ہو سکتی ہے کیونکہ ان میں سے بھی آدھے جانوروں کی کلاس پائسیس ہے یعنی کہ مچھلیاں، مچھلیوں میں بھی ریڈ کی ہڈی ہوتی ہے لیکن انہیں کشتی پر سوار کرنے کی ضرورت تھی۔
قرآن پاک کے دیئے گئے حکم کو دوبارہ دیکھو تمام جانداروں کی زوج میں سے دو کو کشتی میں بٹھا لو۔۔ لفظ زوج کا ترجمہ؟ زوج کہتے ہیں ایک فیملی کو ایک ایسا بریڈنگ پیر، ایک جوڑا جو مزید ایک اور فیملی بھی بنا سکتے ہیں ایک طرح کا ری پروڈکشن یونٹ؟
اور اب اس ساتوے رینک کو دیکھو اور ایک اہم بات نوٹ کرو گے کہ ایک فیملی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر جانور ایک دوسرے کے ساتھ میٹنگ کرکے افزائش نسل یا ری پروڈکشن کر سکتے ہیں مثلاً ڈاگ فیملی اور کیٹ فیملی ان دونوں فیملیز کے جانوروں کو دیکھو۔
ایک ہی فیملی سے تعلق رکھنے والے جانور آسانی کے ساتھ میٹنگ کرسکتے ہیں اسی طرح تیندوہ یعنی چیگوار اور پیوما ایک ہی فیملی یعنی فیلیڈائی سے ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ میٹنگ کرسکتے ہیں۔
آسان الفاظ میں حضرت نوحؑ کو حکم ہوا کہ تمام جانوروں کی زوج میں سے ایک ایک جوڑا کشتی پر سوار کرلیں۔ ایک ہی زوج کے جانور، ایک ہی فیملی کے جانور کیونکہ ایک فیملی کے جانور آپس میں ملٹی پلائی کرکے آگے کئی کئی سپیشیز بنا سکیں گے۔ اس ٹیکنیک سے کشتی پر جانوروں کی حیران کن حد تک کم تعداد سوار ہوتی ہے۔ سب ملا کر سات ہزار مختلف جانوروں کو کشتی پر سوار کرنا تھا جن میں بہت سے جانور ہیں۔ بہت سوں کے انڈے بھی ہیں اور انجیل سے ایک بات پتا چلتی ہے ایک اڈیشنل بات کہ جانور جوان کم عمر اور صاف ہونے چاہیے اور یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ جوان اور کم عمر جانوروں کا مطلب ہے چھوٹی جگہ میں زیادہ جانور پورے آسکتے تھے جن کی افزائش نسل کے امکانات زیادہ ہوتے۔
چند سوالات اور بھی پیدا ہوتے ہیں جن میں سے ایک سوال یہ ہے کہ یہ جانور کھاتے کیا تھے؟ چلو سبزی خور جانوروں کے لیے تو اجناس کا ایک سٹاک رکھا جا سکتا تھا لیکن گوشت خور جانور وہ کیا کھاتے ہوں گے؟
آج سے دس ہزار سال پہلے کی دنیا جب یورپ کے مختلف حصوں میں لوگ جنگلوں اور وادیوں میں چھوٹے چھوٹے گاؤں بنا کر رہا کرتے تھے اور ان گاؤں میں دو ہی قسم کے کام ہوتے تھے، دو ہی جابز ہوتی تھی یا تو آس پاس کے جنگل سے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرو یا پھر گھنے جنگل میں جا کر ہرن یا دیگر جانوروں کا شکار کرو یعنی ہنٹر بن جاؤ، شکاری بن جاؤ اور یہ وہ وقت تھا جب انسان نے گوشت کو نمک لگا کر محفوظ کرنا شروع کیا یعنی آسان الفاظ میں salted meat جسے ایک لمبے عرصے تک store کیا جا سکتا ہے ان فیکٹ بجلی اور فرج کے استعمال سے پہلے یہ practice ہمارے پاکستان میں بھی کافی عام تھی کہ گوشت و نمک لگاتے خراب ہونے سے محفوظ کر لیا جاتا تھا دوسری بات یہ ہے کہ یہ کشتی کوئی truth ship نہیں تھا جس میں آپ کو بہترین قسم کے کھانے اور خوراکیں ملتے۔ یہ اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے ایک سروائیول شپ تھا ایک قسم کا کارگو شپ۔۔ سورہ انکبوت میں اس کشتی کے لئے سفینہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سفینہ یعنی کہ ایک کارگو شپ اور جتنے بھی کارگو شپس ہوتے ہیں ان پر خواہشات والی نہیں بلکہ ضروریات والی چیزیں رکھی جاتے ہیں۔
ایک اور سوال بھی ہے کہ اگر اس کشتی پر سات ہزار مختلف سپیشیز کے جانور سوار ہوئے جبکہ آج لاکھوں سپیشیز زندہ ہیں تو صرف چند ہزار سالوں میں سات ہزار سے لاکھوں سپیشیز کیسے پیدا ہوگئی؟
تم سورہ نحل کی اس آیت کا مفہوم یاد کرو کہ ہم نے زمین میں تمہارے لیے جو بھی تھوڑے سے بڑھایا اس کے مختلف رنگ ہیں، مزاج ہیں، اقسام ہیں۔
اس سیلاب کے متعلق ایک سوال کہ جو آج کل بہت زیادہ لوگوں نے مس انٹرپرٹ کیا ہے کہ کیا یہ سیلاب پوری دنیا پر آیا تھا یا صرف ایک خاص شہر میں؟
اگر یہ ایک شہر میں ہوتا تو اتنی بڑی کشتی بنانے کے بجائے حضرت نوحؑ دوسرے کئی پیغمبروں کی طرح اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر کیوں نہیں چلے گئے؟ اور نوحؑ کو جانوروں کی اتنی بڑی تعداد ساتھ لینے کی بھی کیا ضرورت تھی؟
آج ہم سب جانتے ہیں کہ بہت سے جانوراور پرندے کسی جگہ سیلاب آنے سے پہلے ہی سیلاب کے خطرے کو بھانپ کر وہ علاقہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
سورہ قمر میں آیا تھا کہ زوردار بارش سے آسمان کے دروازوں کو کھول دیا گیا تو کیا اس خوفناک بارش اور اُبل کر نکلنے والے اس پانی نے صرف اسی شہر کے اندر رہنا تھا؟
عبدالرحمان، ایک اور بات اہم ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں تین سو ایسے مختلف کلچرز موجود ہیں کہ جہاں ایک عظیم سیلاب کی کہانی ملتی ہے جس سے پوری دنیا ڈوب گئی تھی۔ دنیا کے مختلف کونوں میں ایک عظیم سیلاب کے بغیر ان کہانیوں کا پھیل جانا کیسے ممکن تھا؟
کشتی جودی پہاڑ پر رکی تھی جو ترکی میں ہے بالکل عراق اور شام کے بارڈر کے قریب تو جب نے جودی پہاڑ سے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر دور ناروے کی نورس مائیتھالوجی میں ایک کہانی ملتی ہے جوٹن کی کہانی۔ جوٹن ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو خدا سے باتیں کرتا ہے اور کہانی کے مطابق اس جوٹن کا نام برگل میر ہے جو پوری دنیا میں آئے ایک عظیم سیلاب میں ایک بڑی سی کشتی لے کر نکلتا ہے۔
اسی طرح آئرلینڈ میں مڈل ایجز کے دوران لکھے جانے والی ایک کتاب اینلز آف فور ماسٹرز Annals of the Four Masters میں بھی ملا یہ کتاب ان کی تاریخ اور ان کی لوک داستانوں پر مشتمل ہے اینلز آف فور ماسٹرز یعنی چار بادشاہوں کا تاریخی ریکارڈ اس میں بیٹس نام کے ایک ماسٹر کی بھی کہانی ہے جو ایک عظیم سیلاب کے وقت چون آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر سیلاب سے بچنے کے لیے پہاڑ پر چڑھتا ہے لیکن بالاخرہ ڈوب جاتا ہے۔ جودی پہاڑ سے چار ہزار کلومیٹر دور آئرلینڈ کی میتھولوجی کی ایک اور کتاب بھی ہے جس کے نام کا اردو میں مطلب ہے آئرلینڈ پر انسان کی کہانی جس میں ایک عظیم سیلاب کے بعد آئرلینڈ پر انسان کے پہلی مرتبہ قدم رکھنے کا ذکر ہے۔ اس کہانی کا ایک کردار ہے سیزائر اور آئریش زبان میں سیزائر کا مطلب ہے بہت زیادہ دکھ یا افسوس یا غم کرنے والا اور تم لفظ نوح کے مطلب سے واقف ہو گے کہ نوح کا مطلب بھی غم اور افسوس کرنے والا ہی ہوتا ہے بلکہ نوحہ یعنی غمگین باتیں کرنا بھی اسی لفظ سے۔
ایک اور طرف دیکھتے ہیں۔۔ جودی پہاڑ سے چار ہزار کلومیٹر دور انڈیا میں جہاں ہندو مائیتھالوجی کا ایک واقعہ ہے منوانترا اس کا مطلب ہے دھرتی کا تباہ ہونے کے بعد دوبارہ رہنے کے قابل بننا۔۔ اس concept میں ایک شخص منو کا ذکر ہے جو دنیا میں بسنے والے لوگوں میں سب سے پہلا انسان ہے جس نے ایک بڑے سیلاب کے بعد دنیا کو آباد کیا، آج کا ہندی لفظ منوشہ یعنی انسان اسی لفظ منو سے نکلا ہے۔