Nusli Wadia Ka Khat
نسلی واڈیا کا خط
محترم نسلی واڈیا صاحب
اُمید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔
آج صبح جب میں جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کر کے گھر لوٹا،ارے نہیں نہیں میرے گھرگیس کا کنکشن اور چولہا سب موجود ہے، مگر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پاکستان میں سردیوں میں گیس اور گرمیوں میں بجلی ناپید ہو جاتی ہے۔ اس لئے جب آج صبح میں لکڑیاں لے کر گھر آیا تو میری سولہ سالہ بیٹی نے مجھے آپ کے خط کے بارے میں بتایا۔ [وہ خط جو آپ کے نام سے سوشل میڈیا پر پھیلا ہوا ہے ، شاید فیک ہو، مگر اس خط کی کچھ باتیں دلچسپی سے خالی نہیں ۔اگر یہ خط آپ کا نہ بھی ہو تو ان لوگوں کی نمائندگی ضرور کرتا ہے جو پاکستان سے عناد رکھتے ہیں ]
خیر ،میں یہ کہہ رہا تھا کہ بچی کافی دن سے اداس تھی اور آج آپ کے خط کی وجہ سے وہ اپنی اُداسی بھول گئی۔ اصل میں وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن پاکستان کے اخلاقی حالات ایسے نہیں کہ میں جوان بچی کو مزید پڑھنے کی اجازت دوں۔ کبھی میری نظروں کے سامنے نور مقدم گھوم جاتی ہے تو کبھی مجھے ہائی وے پر ہونے والے زیادتی کیس کا خیال آجاتا ہے۔ لہذا میں نے اسے مزید پڑھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
تو جب اس نے مجھے بتایا کہ آپ نے پاکستان کی شہریت لینے سے انکار کر دیا ہے تو سچ پوچھیں تو میرے دل کا بیک وقت خوشی اور دکھ دونوں سے ہی بھر گیا،آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں کیسا عام پاکستانی ہوں جو قائد اعظم کے نواسے کی پاکستان کی شہریت قبول نہ کرنے پر خوش محسوس کر رہا ہے،اصل میں مجھے لیاقت علی خان یاد آ گئے،انھیں تو آپ جانتے ہی ہوں گے، آ پ کے نانا کے بہت قریبی دوست تھے،محسنِ پاکستان تھے،مگر صد افسوس کی پاکستان ان کی حفاظت نہ کر سکا،نہ آج تک ان کے قتل کا محرک سامنے آیا،نہ اس پولیس افسر کی کوئی رپورٹ سامنے آئی جس نے موقع واردات پر ہی بد بخت اکبر کو گولی مار کر سارے ثبوت ختم کر دئیے اور صرف لیاقت علی خان ہی کیوں،حکیم سعید سے لے کر بے نظیر تک کس کے قاتل پکڑے گئے،ایک لمحہ کے لئے مجھے تو سب ہی یاد آ گئے۔تو خوشی کی وجہ بھی یہی تھی کہ آپ لندن میں محفوظ تو رہیں گے،مگر یہ خوشی لمحاتی تھی، یک دم دل کو دکھ کا احساس بھی ہوا،کیا آج کا پا کستان،آپ کے نانا کا پاکستان،اس قابل بھی نہ رہا کہ آپ اپنی ساگوان سے بنی میز کے دوسرے دراز میں برٹش اور انڈین پاسپورٹس کے ساتھ اس سبز پاسپورٹ کو رکھ چھوڑتے؟
ڈھاکہ اور سلہٹ نے بھی میرے زخم ہرے کر دیے،آپ کیا جانیں ایک عام آدمی پر اس تقسیم سے کیا گزری،نہ بھٹو رہا نہ مجیب،باقی رہے تو کراچی کی مچھر کالونی میں رہنے والے بنگلہ دیشی اور بنگلہ دیش کے بہاری کیمپ میں رہنے والے پاکستانی،آپ نے مجھ جیسے عام آدمی کے زخموں پر نمک پاشی کر دی۔
آپ کے نانا کے دیس میں اب بھی شراب خانے دلوں کو گرماتے ہیں، فرق یہ ہے کہ پہلے یہ شراب خانوں میں ملتی تھی اب ہسپتال کے کمرے میں اور شہد کی بوتل میں پائی جاتی ہے،پہلے غیر مسلم کھلم کھلا خریدتے تھے۔،اب مسلمان لائن میں لگ کر خریدتے ہیں،بے شک آپ کے نانا کے دور میں مدرسے خال خال تھے، مگر ان مدرسوں میں نا بالغ بچیوں اور بچوں کے ساتھ زنا نہیں ہوتا تھا،واڈیا صاحب! آپ کے الفاظ نے تو عام پاکستانی کے زخم ہی چاک کر ڈالے۔
بے شک آپ کے نانا کے دور میں جسٹس کارنیلس فیصلہ سنانے سے پہلے اپنا مذہب نہیں بتاتے ہوں گے مگر آج کے پاکستان میں عام آدمی کو جج تک پہنچنے کے لئے اپنی آمدنی بتاتی پڑتی ہے،ملاقات کا ریٹ طے کرنا پڑتا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ آپ اکیلے 7 ارب ڈالر کے مالک ہیں،مگر بطور عام آدمی مجھے ڈالر سے کوئی دلچسپی نہیں،میں نے تو کبھی ان ڈالرز کے متعلق بھی سوال نہ کیا جو پاکستانی سیاست دانوں نے کرپشن کر کر کے غیر ملکی بینکوں میں رکھ چھوڑے ہیں۔ مگر آپ سے دلی تعلق کی بنا پر میرے دل میں خواہش بیدار ہوئی کہ اے کاش ایک بار پھر آپ پاکستان تشریف لاتے،میں آپ کو چند ایسے لوگوں سے ملواتا جو آپ کے نانا کے پاکستان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں،کاش آپ ایدھی صاحب سے ملتے تو دیکھتے کہ پاکستان میں لوگوں کو صرف گولیوں سے نہیں بھونا جاتا بلکہ انھیں محبت سے اپنایا بھی جاتا ہے،آپ نے اپنے خط میں جسٹس کانیلسن کا ذکر کیا ہے، میں آپ کو یوسف سلیم سے ملوانا چاہتا ہوں جو پاکستان پہلے نابینا جج ہیں۔
سلیم نے اپنی ہمت سے نظام کا رُخ بدل دیا،جناب واڈیا صاحب آج کے پاکستان میں غیر ملکی بکنی پہن کر ساحلوں پر غسلِ آفتابی تو نہیں لیتے مگر شمیم اختر جیسی باہمت خواتین آپ کے نانا کے پاکستان میں اب بھی موجود ہیں اور بلا خوف و خطر تجارتی مال برداری کے لیے ٹرک چلاتی ہیں،آپ پاکستان آتے تو میں آپ کو پا کستان کے بیٹے اسفند یار سے ملواتا جو ایک فوجی جوان تھا اور دہشت گردوں کو جہنم رسید کر کے خود بھی جام شہادت نوش کر گیا،آپ پاکستان آتے تو دیکھتے کہ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے بچے آج بھی اسی اسکول کی انہی جماعتوں میں پورے اعتماد کے ساتھ بیٹھے ہیں،یہ سب بھی تو آپ کے نانا کے پاکستان میں ہی ہے نا!
اس خط کا کوئی ٹریکنگ نمبر نہیں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ یہ خط کبھی آپ کی نظر سے گزر بھی سکے گا یا نہیں مگر آپ کو خط لکھ کر میں نے اپنے دل کا بو جھ ہلکا کر رہا ہوں۔
والسلام