Maon Ka Ghar
ماؤں کا گھر

" یہ۔۔ یہ کیا ہوا۔۔ "
فراز نے سعیدہ کے ماتھے سے بال ہٹا کر دیکھا۔
"چکر آ گیا تھا۔۔ گر گئی تھی۔۔ "
سعیدہ نے نم دیدہ ہو کر کہا فراز کا دل مسوس کر رہ گیا۔
"گئی کیوں تھیں یہاں سے؟"
وہ خفا ہو گئے
"کتنا منع کیا تھا مت جاؤ۔۔ مگر نہیں۔۔ میرا بیٹا میرا بیٹا کی رٹ لگا رکھی تھی۔۔ دیکھ لی بیٹے کی محبت؟"
سعیدہ نے زخمی نگاہوں سے فراز کو دیکھا۔
"بیٹا تو بہت اچھا ہے۔۔ مگر بہو۔۔ وہ نہیں ٹکنے دیتی مجھے۔۔ "
آنسو جھڑی کی شکل میں بہہ نکلے فراز کا دل بھی رو اٹھا
"اچھا چلو رو مت۔۔ " انھوں نے سعیدہ کو تسلی دی اور اپنے کلرک کو آواز دی۔
"اسد۔۔ اسد۔۔ دیکھو! سعیدہ ماں واپس آ گئی ہے۔۔ اس کو واپس اس کے کمرے میں لے جاؤ۔۔ "
سعیدہ ماں کا نام سن کر اسد بھی بھا گا آیا یوں تو اس کو اپنی ساری ہی مائیں عزیز تھیں مگر سعیدہ ماں سے کچھ زیادہ انسیت تھی۔
"آپ آ گئیں۔۔ " اسد نے سعیدہ ماں کی کرسی کے ہینڈل کو تھاما اور ان کے قدموں کے پاس نیچے فرش پر ٹک گیا۔
سعیدہ ماں کے آنسوؤں سے نم چہرے پر مسکراہٹ کا سورج سا طلوع ہوگیا۔
[ماؤں ہی سے تو صبح کے سورج نے مسکراہٹ مستعار لی ہے]
انھوں نے بڑی شفقت سے اسد کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں:
"ہاں۔۔ میں آ گئی۔۔ اپنے بیٹے اسد کے پاس۔۔ "
اسد نے ان کا جھریوں بھرا ہاتھ تھاما اور فراز کی طرف دیکھ کر بولا
"سر۔۔ دیکھا آپ نے؟ میں نے کہا تھا سعیدہ ماں کا کمرہ کسی کو نہ دیں۔۔ وہ واپس آئیں گی۔۔ "
فراز کو سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ سعیدہ کی واپسی پر خوش ہو یا دکھی۔۔
***
فراز ایک ادھیڑ شخص تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔۔
لے پالک اولاد۔۔ انھوں نے کبھی نہیں بتایا کہ فراز کے اصلی والدین کون تھے شائد وہ خود بھی نہیں جانتے تھے مگر انھوں نے فراز کو اپنے دل کا ٹکڑا بنا کر پالا تھا۔ پیسے کی ریل پیل تھی سو فراز کی کوئی خواہش کبھی ادھوری نہ رہی۔۔ سوائے ایک خواہش کے۔۔ اپنی حقیقی ماں سے ملنے کی خواہش۔۔
"امی۔۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہ کون تھیں۔۔ مگر آپ مجھے نہیں بتانا چاہتیں۔۔ ہے نا؟"
فراز نے سخت ناگوار نظروں سے اپنی ماں غزالہ کی طرف دیکھا۔ فراز کی شرر برساتی آنکھیں غزالہ کی روح تک کو چھلنی کر گئیں۔
"میں نہیں جانتی۔۔ یہ بات میں تمہیں کئی بار بتا چکی ہوں۔۔ فراز۔۔ ہم سے ایسی کون سی کمی رہ گئی جو تمہارے اندر یہ تشنگی پیدا کر گئی؟ بیٹا ہم نے تو تمہیں اس وقت دل وجان سے اپنایا تھا جب تم محض چند گھنٹوں کے تھے۔۔ "
[انسان میں پائی جانے والی یہی تشنگی کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے کسی انجان شے کی کھوج میں لگا رہتا ہے اس کو رضا کی منزل سے دور کرتی جاتی ہے]
غزالہ کا گلا رندھ گیا۔ فراز کو افسوس ہونے لگا مگر وہ بھی کیا کرتا یہ خیال اس کو سکون نہیں لینے دیتا تھا کہ اس کی حقیقی ماں نے اس کو چھوڑ دیا۔
غزالہ نے بہت کوشش کی تھی کہ فراز کو اپنے لے پالک ہونے کا پتہ نہ چلے مگر ظاہر ایسی باتیں کہاں چھپتی ہیں۔۔ نجانے کس نے فراز کو نو عمری میں ہی اس تلخ حقیقت سے روشناس کروا دیا اور اس کے کچے ذہن میں یہ بار راسخ ہوگئی کہ غزالہ اور سمیع اس کے حقیقی والدین نہیں ہیں۔ وہ جب کبھی ماں باپ کے حقوق، اولاد کے فرائض سے متعلق کوئی بات سنتا یا پڑھتا تو نجانے کہاں سے یہ خیال سانپ کی طرح رینگ کر اس کے دماغ میں پھنکاریاں مارتا کہ ممی اور پاپا بھی میرے حقیقی ماں باپ نہیں ہیں ان کی خدمت و اطاعت مجھ پر فرض نہیں اور وہ، جن کی خدمت و اطاعت مجھ پر فرض ہے وہ نجانے کہاں ہیں۔۔
کون ہوں میں؟
نو ماہ کس ماں کس کی کوکھ میں گزارے؟
غزالہ کی گود میں آنے سے پہلے چند گھنٹے کس کی گود میں رہا؟
میری ماں کون ہے؟
میرا باپ کون ہے؟
کیا میرے اور بہن بھائی بھی ہوں گے؟
وہ بار بار غزالہ سے اس بارے میں سوال کرتا اور غزالہ کی روح کا ایک ٹکڑا اس کے ہر سوال پر مر جاتا۔۔ وہ بار بارسوچتی کہ میری ممتا میں کہاں کمی آئی؟
اس کے شوہر سمیع نے کئی بار اس سے کہا کہ فراز کو حقیقت بتا دو مگرغزالہ کا دل نہ مانا۔۔
"اسے تکلیف ہوگی۔۔ اپنی کم وقعتی پر دکھی ہو جائے گا۔۔ اس کے حقیقی ماں باپ کی بدکرداری کا گناہ اس پر آشکار ہو جائے گا۔۔ نہیں نہیں سمیع۔۔ وہ۔۔ وہ خود کو کم تر سمجھنے لگے گا۔۔ رہنے دیں۔۔ "
سمیع بھی چپ ہو جاتا مگر وہ جانتا تھا کہ فراز کے سوال غزالہ کی روح کو چھید ڈالتے ہیں۔۔ مگر غزالہ بھی تو ٹھیک ہی کہتی تھی۔۔ اگر فراز کو بتا دیا جاتا کہ وہ دو نا محرموں کی ناجائز محبت کا نتیجہ ہے جس کو پیدا ہوتے ہی ایک پھٹی ہوئی چادر میں لپیٹ کر دائی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔۔ تو اس کی دل پر کیا گزرتی۔۔ جب اس کو بتایا جاتا کہ جن خونی رشتوں سے ملنے کو وہ بے تاب ہے ان خونی رشتوں کے لئے وہ ایک گالی ہے تو عزت نفس مجروح ہو جاتی۔۔ نہیں۔۔ یہ غزالہ کو ہرگز منظور نہ تھا۔۔
"کوئی بات نہیں۔۔ سوال ہی تو پوچھتا ہے۔۔ فطری بات ہے۔۔ ابھی ناسمجھ ہے۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جائے گا۔۔ "
وہ سمیع کو تسلی دیتی مگر وقت کے ساتھ سمجھدار ہونے کے بجائے فراز باغی ہوگیا یا شائد خودغرضی اس کی فطرت کا حصہ تھی۔
***
"میں کینیڈا جا رہا ہوں۔۔ "
ایک دن فراز نے اعلان کیا۔ غزالہ کی سانس سی رک گئی۔ سمیع کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا۔ وہ تو فراز کے لئے کچھ اور ہی خواب سجائے بیٹھے تھے۔ اس کی شادی۔۔ پھر اس کے بچے۔۔
جس محرومی کا وہ عمر بھر شکار رہے اس محرومی کا ازالہ وہ فراز کی خوشیوں میں چاہتے تھے۔ مگر فراز نے تو ایک لمحے کے لئے نہ سوچا۔ اس نے گریجویشن سے پہلے ہی آن لائن کینیڈا میں جاب کی تلاش شروع کر دی تھی اور ساری معاملات طے ہونے کے بعد اس نے دونوں کو آگاہ کیا۔
"فراز۔۔ تم نے ہم سے مشورہ لینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔۔ بیٹا ذکر تک نہیں کیا۔۔ "
سمیع کا دل اس کی خود غرضی پر پار ہ پارہ ہوگیا۔
"بیٹا تم ابھی کم عمر ہو۔۔ اکیلے اتنی دور کیسے رہو گے؟"
غزالہ تو ماں تھی ناں۔۔ خود سے زیادہ بیٹے کی فکر تھی۔ مگر فراز کی آنکھوں پر بہتر مستقبل کی پٹی بندھی تھی۔
"یہ میرے حقیقی ماں باپ نہیں ہیں۔۔ مجھے ان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔ "
اس نے اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیا تھا۔
***
غزالہ اور سمیع پھر سے تنہا رہ گئے۔
وہ گھر جس کا ہر کونہ انھوں نے فراز کی پسند نا پسند اور آرام و سہولت کو مدنظر رکھ کر بنایا تھا اب خالی پڑا تھا۔
جس گھر کو انھوں نے فراز کے بچوں کی قلقاریوں سے گونجتا سننے کے خواب دیکھے تھے اب بھائیں بھائیں کرتا تھا۔
عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے مگر وقت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ عورت مرد سے زیادہ مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی ہے۔ سمیع مرد ہو کر فراز کی بے اعتنائی اور جدائی نہ جھیل پائے اور غزالہ عورت ہو کر جھیل گئی۔ فراز کے جانے کے ایک ہفتے بعد ہی سمیع بستر پر پہنچ گئے۔ ہارٹ پیشنٹ تو پہلے ہی تھے فالج کے اٹیک نے انہیں بالکل ہی کھوکھلا کر دیا۔ ایسے میں غزالہ ہی تھی جس نے ان کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا۔ وہ خود کو بھلا کر شوہر کی خاطر جینے لگیں۔
[شائد عورت عمر بھر ماں ہی رہتی ہے۔ کسی کو پالنا پوسنا اور خیال رکھنا اس کی فطرت ہے]
***
فراز کے لئے کینیڈا کی رنگینیاں بہت دل کش تھیں۔ یہاں اس نے محنت بھی بہت کی مگر زندگی کا اصل مزہ بھی یہیں تھا۔ کبھی کبھی اسے ماں باپ یاد آتے تھے مگر ان کی یاد کے ساتھ ہی اپنے لے پالک ہونے کی حقیقت جڑی تھی سو وہ ان کی یاد سے دامن چھڑا لیتا تھا۔ سمیع کی بیماری کی اطلاع اس کو مل چکی تھی۔ غزالہ نے یوں تو اپنے دل پر پتھر رکھ لیا تھا مگر ممتا سے مجبور ہو کر کبھی کبھی کال کر لیتی تھی۔ کچھ قریبی دوستوں سے بھی رابطہ تھا وہ بھی گھر کی اطلاع دیتے ہی رہتے تھے مگر فراز کے لئے اپنا مستقبل زیادہ اہم تھا۔
***
فراز کے جانے کے بعد سمیع کی خدمت ہی غزالہ کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا اور اک دن وہ مقصد بھی ختم ہوگیا۔ غزالہ ساری خدمت اور دل جوئی بھی موت کو نہ ٹال سکی۔ اسے لگا زندگی کا مقصد ختم ہوگیا۔۔
جینے کی آرزو ختم ہوگئی۔۔ پہلے فراز چلا گیا اور اب سمیع۔
فراز کو بھی اطلاع مل گئی مگر واپس آنا اس کی آپشنز میں کہیں نہیں تھا۔ غزالہ اتنے بڑے گھر میں تن تنہا تھی۔
یادیں۔۔ بس یادیں۔۔ یادیں ہی یادیں۔۔ پرچھائیاں ہی پرچھائیاں
جب فراز بے اعتنائی کی حد کرتے ہوئے اپنا بیگ اٹھا کر گھر سے نکلا تھا تب غزالہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کبھی اس کو آواز نہ دے گی مگر سمیع کے بعد تنہائی کے ناگ اس کو ڈسنے لگے۔
فراز کا بچپن۔۔ اس کی شرارتیں۔۔ انچ انچ بڑھتا اس کا قد۔۔ اسکول کا پہلا دن۔۔ فراز کا پہلا رزلٹ۔۔ وہ کچھ بھی نہیں بھولی تھیں۔
"فراز۔۔ بیٹا واپس آجاؤ۔۔ کچھ دن کے لئے ہی آجاؤ۔۔ "
دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ فراز کو کال کر دیتی مگر فراز تو جیسے پتھر ہوگیا تھا۔
***
Congratulations، its a boy
نرس نے ننھا سا وجود اس کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ فراز کا دل آ ج ایک الگ ہی انداز میں دھڑکا تھا۔
Whom are you going to tell first?
نرس کے سوال پر فراز اس کو دیکھتا رہ گیا۔۔
اس کو اپنا بچپن یاد آگیا جب وہ اپنی ہر خوشی سب سے پہلے اپنی ماں سے ہی شئیر کیا کرتا تھا۔
کوئی نیا کھلونا۔۔ کوئی انعام۔۔ رزلٹ۔۔ اس کی آنکھیں اپنی ماں کو ہی ڈھونڈتی تھیں۔
اور ماں اس کو بانہوں میں بھر لیتی۔۔ اس کی خوشی پر نہال ہو کر رخسار چوم چول لیتی۔۔
"اور میں نے اس ہستی کو ہی بھلا دیا جس نے میری ہر خوشی کو مجھ سے زیادہ سراہا۔۔ "
کئی سال بعد ضمیر نے اس کو کچوکا لگایا تھا۔۔
[یا شائد صاحب اولاد ہونے کے بعد وہ اس درد کو محسوس کر پایا تھا۔ ]
***
کئی سال بعد اس نے ماں کا نمبر ملایا تھا۔ نمبر بند تھا۔ فراز کے دل کو کچھ ہونے لگا اس نے جلدی جلدی اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے نمبر تلاش کرنا شروع کئے۔ کئی لوگوں سے رابطے بحال ہوئے اور ان ہی میں سے کسی ایک فراز کو وہاں کے حالات سے آگاہ کیا۔
"فراز۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا۔۔ سمیع انکل کی موت کے بعد غزالہ آنٹی تمہاری یاد میں نیم پاگل سی ہوگئیں۔۔ محلے والے ان کے کھانے پینے اور دوا کا خیال رکھتے رہے۔۔ وہ تمہارے کمرے میں بیٹھی رہتی تھیں یا مین گیٹ کے پاس۔۔
"۔۔ فراز تم نے اچھا نہیں کیا۔۔ "
فراز کا دل کسی نے مٹھی میں لے کر مسل دیا تھا۔
"یہ میں نے کیا کیا۔۔ میرے خدایا۔۔ میں اتنا خود غرض اور احسان فراموش کیسے ہوگیا۔۔ "
***
فراز کا بیٹا جوں جوں بڑا ہو رہا تھا اس کا احساس جرم بھی بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ بوجھ اتنا بڑا کہ سانس لینا محال ہونے لگا۔
"ہم پاکستان واپس جا رہے ہیں۔۔ ہمیشہ کے لئے۔۔ "
ایک دن اس نے اعلان کر دیا۔
"واٹ۔۔ آر یو میڈ؟"
اس کی بیوی چلا اٹھی "لوگ وہاں سے یہاں آنے کے لئے مرے جا رہے ہیں اور تم واپس جا رہے ہو۔۔ نو وے۔۔ میں اور میرا بیٹا کہیں نہیں جائیں گے۔۔ سنا تم نے۔۔ "
انسان جو بوتا ہے وہ اس کو کاٹنا ہی پڑتا ہے۔۔
"میں نے بھی تو ممی پاپا سے ان کا بیٹا دور کر دیا تھا۔۔ اب میری باری ہے۔۔ "
***
گھر مٹی سے اٹا تھا۔ فراز کے کمرے کی ہر چیز جوں کی توں رکھی تھی۔ بس بیڈ کے سرہانے ایک ڈبے کا اضافہ ہوگیا تھا۔ فراز نے کانپتے ہاتھوں سے ڈبا کھولا۔ وہ بھی اسی کے سامان سے بھرا تھا۔
غزالہ نے اس کی ہر چیز سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔۔
اس کے پہلے پہل کے بال۔۔ اس کے دودھ کے دانت۔۔ اس کے ننھے ننھے کپڑے۔۔ یونیفارم
فراز کے رزلٹ کارڈز۔۔ ڈائریاں۔۔
حتیٰ وہ پھٹی ہوئی چادر تک جس میں انھوں نے فراز کو پہلی بار گود میں لیا تھا۔ چادر میں ایک خط بھی تھا۔
"میری جان سے پیارے بیٹے فراز۔۔
تم بار بار مجھ سے اپنی شناخت مانگتے تھے۔ میری جان بس یہ ہی ایک چیز تھی جو میں تمہیں نہیں دے سکتی تھی۔ تمہارے حقیقی ماں باپ کی بس یہ ہی ایک نشانی میرے پاس ہے۔ اس کو میں نے نجانے کیوں سنبھال کر رکھا شائد اسی لئے کہ ایک دن تم مجھے سے حساب مانگو اور میں جواب میں اس چادر کو پیش کردو۔ مجھے معاف کردینا میرے بیٹے۔۔ میں مجبور تھی۔
تمہاری ماں۔۔ اگر تم سمجھو تو"
فراز کا لہو آنکھوں سے بہنے لگا۔۔ وہ دیواروں سے ٹکراتا پھرا۔۔ ماں ماں پکار تے اس کا گلا بیٹھ گیا۔
"ممی! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گھر میں گھستے ہی میں نے آپ کو پکارا ہو اور آپ دوڑ نہ آئی ہوں۔۔ مجھے گلے نہ لگایا ہو۔۔ آج میں رو رو کر پکار رہا ہوں مگر آپ نہیں آ رہیں۔۔ "
وقت خود کو دہراتا ہے۔۔
وہ تصویریں بار بار دکھاتا ہے۔۔
فراز کو اپنے گناہوں کا احساس تھا مگر اب سمیع اور غزالہ اس سے بے نیاز ہو چکے تھے لیکن فراز کو ازالہ تو کرنا تھا۔
***
سعیدہ ماں فراز کے گھر کی سب سے پرانی ماں تھیں۔ سالوں سے فراز کے "ماؤں کا گھر" میں رہ رہی تھیں مگر جب بھی انھیں اپنے بیٹے کی طرف سے کسی قسم کی کوئی خبر ملتی وہ تڑپ تڑپ کر اس کے پاس جانے کی ضد کرنے لگتی تھیں اس بار بھی یہ ہی ہوا تھا۔ جیسے ہی انھیں اپنے بیٹے کی بیماری کی اطلاع ملی وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگیں فراز جانتا تھا کہ اب وہ نہیں رکیں گی مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جلد ہی ان کی واپسی ہو جائے گی۔
"بیٹا۔۔ اگر یہ "ماؤں کا گھر" نہ ہوتا تو میں کہاں جاتی؟"
انھوں نے اپنے کمرے میں پہنچ کر ممونیت سے فراز کو دیکھا۔ فراز کو لگا شائد تھوڑا سا ازالہ ہوگیا۔
"سعیدہ ماں۔۔ جیسے ماں کا دل ہر وقت کھلا ہوتا ہے اور ان کے گھر کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوتا ہے اسی طرح یہ "ماؤں کا گھر" بھی ہمیشہ کھلا رہے گا۔۔ انشا اللہ"

