Kun Fayakoon (4)
کُن فیکون (4)
سورۃ الرحمان میں ارشاد ہے کہ اگر تم میں آسمان اور زمین کے کناروں سے باہر نکلنے کی طاقت ہے تو نکل جاؤ۔ بغیر طاقت کے تم نہیں نکل سکتے۔ تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا اور تم خود کو نہیں بچا سکوگے۔۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان بیکراں بلندیوں کے بعد جن کے فاصلے انسان شاید کبھی سمجھ نہیں سکتا۔ آخروہ کس قسم کی جگہ ہوگی جہاں پہنچنے والوں پر دھواں اور آگ کے شعلے گریں گے اور شاید وہی جگہ ہماری دنیا کے آسمان کے پھیلاؤ کی حد ہے۔ اس کا کنارا ہے۔ اور ہمارے اس آسمان کا پھیلاؤ اس کی بلندی شاید ہمارے atmosphere سے لے کر کہیں بہت دور بہت اوپر تک جاتا ہے۔ اسی لیے تو اسی آسمان کے اندر سے پانی بھی اتر رہا ہے سورج، چاند اور ستارے بھی اسی آسمان میں تیر رہے ہیں۔ ستاروں سے مزین بھی یہی آسمان ہے۔
قرآن میں آسمان پر تحقیق کرو تو چار جگہ آسمان کے ڈیزائن کے بارے میں اشارہ ملتا ہے۔ چھ جگہ آسمانی مخلوقات کے متعلق اشارہ ملتا ہے۔ تین جگہ آسمان سے رزق بھی اترتا ہوا دیکھنے کو ملتا ہے۔ چھ جگہ آسمان کے دروازے اور راستے دیکھنے کو ملتا ہے۔ دو جگہ جنات اور شیاطین کا آسمان میں آنا جانا بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سولہ جگہ آسمان کے مقدر کے بارے میں جاننے کو ملتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان تخلیق کے قسم اٹھائی جانے کے بارے میں اشارہ ملتا ہے۔
عبدالرحمن، تم نے دیکھا کہ اس پوائنٹ تک ہماری سائنس کے ذریعے رسائی ناممکن تھی لہٰذا قرآن وحدیث کے سائے میں میں نے آسمانوں کی کمپوزیشن کے متعلق مزید explore کیا اور ایک مصری عالم حافظ جلال الدین السیوتی کی ایک کتاب میں مجھے ان آسمانوں کی ایک بڑی تفصیلی description ملی اور اب میں آپ کو بتانے والوں کہ کارمن لائن Kármán line کے پرے یعنی کہ جو ہماری آخری حدود ہے اس سے پرے۔ ہمارے اوپر سے شروع ہو جانے والے اس پھیلاؤ کی سب سے آخری حد پہلا آسمان ہے کہ جو پانی کا بنا ہوا ہے اور شاید اسی پانی کی وجہ سے پہاں پہنچنے والے پر سورۃ رحمان کے مطابق دھوئیں چھوڑے جانے کا ذکر ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اسی پہلے آسمان میں حضرت آدم و حواؑ رہتے ہیں۔ ایک روایت ہے کہ پہلا آسمان ایک ایسے پانی کا بنا ہوا ہے جو جاندار ہے زندہ ہے۔ اس میں ایسے دروازے ہیں جن سے بغیر اجازت کے کوئی چیز نہیں گزر سکتی۔ یہاں تک کہ حرارت بھی نہیں۔
اس کے اوپر دوسرا آسمان ہے جوسفید موتیوں کا بنا ہوا ہے۔ بخاری اور سنن نسائی کی حدیث کے مطابق وہاں حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحییٰؑ رہتے ہیں اس کے اوپر تیسرا آسمان ہے۔ اس تیسرے آسمان میں حضرت یوسفؑ رہتے ہیں اور کچھ روایات کے مطابق اس آسمان میں عزرائیلؑ کے ہونے کا بھی ذکر ہے جو ملک الموت یعنی موت کے فرشتے کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس کے اوپرچوتھا آسمان ہے جو پیتل کا بنا ہوا ہے۔ اس چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ رہتے ہیں۔ پھر اس کے اوپر پانچویں آسمان میں اور وہ چاندی کا بنا ہوا ہے وہاں حضرت ہارونؑ رہتے ہیں اور جہنم کے داروغہ مالک کے بھی وہیں ہونے کا ذکر ہے۔ اس کے اوپر چھٹا آسمان ہے یہ سونے سے بنا ہوا آسمان ہے اور وہاں حضرت موسیٰؑ رہتے ہیں۔
سورۃ النجم کے مطابق یہاں ایک عظیم الشان درخت ہے جس کی جڑ چھٹے آسمان سے شروع ہوتی ہے اور اس کی شاخیں اوپر ساتویں آسمان تک پھیل جاتی ہیں۔ اس درخت کا نام سدر ۃالمنتہیٰ ہے۔ یہ بیری کا ایک درخت ہے جس کے پتے بڑے بڑے اور اس کے پھل مٹکوں جیسے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں نے دیکھا کہ جب اللہ کے حکم نے اس درخت کو ڈھانپا تو اس درخت کے رنگ ایسے بدلے کہ میں ان رنگوں کو ہی نہیں جانتا۔
دنیا کی کوئی مخلوق اس درخت کے رنگوں کی خوبصورتی کو بیان نہیں کر سکتی اور پھر اس کے اوپر ساتواں آسمان ہے جس کا ذکر اہل کتاب کے ہاں بھی ایرابوتھ araboth کے نام سے ملتا ہے۔ ساتواں آسمان سرخ یا قوت کا بنا ہوا ہے۔ یہ وہ آسمان ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ رہتے ہیں یہ ایک ایسی روشنی سے بنا ہوا آسمان ہے جسے انسان نہیں سمجھ سکتا۔ سدر ۃالمنتہیٰ کی شاخیں اسی آسمان تک پہنچتی ہیں، نیچے سے جو جاتا ہے وہ یہی روک لیا جاتا ہے اور اوپر سے جو آتا ہے وہ یہیں سے وصول کیا جاتا ہے۔۔ لیکن اس سے اوپر کیا ہے؟
اس کے اوپر کرسی ہے اور یہ انسان سمیت تمام مخلوقات کے علم کی انتہا ہے کیونکہ اس سے اوپر عرش کا مالک ہے۔ وہ اللہ رب العزت جس نے مجھے بنایا جس نے تم کو بنایا۔ اس عرش کے دائیں طرف لوح محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لوح محفوظ کو سفید موتیوں سے پیدا کیا ہے جس کے صفحے سرخ یاقوت کے بنے ہوئے ہیں۔ اس کا قلم نور کا ہے اور اس میں ہونے والی لکھائی بھی نوری ہے اور عرش سے وابستہ ہے۔ لوح محفوظ وہ چیز ہیں جس میں تخلیق، رزق، زندگی، موت، عروج، زوال اور اللہ کا ہر حکم لکھا جاتا ہے اور اس کے علاوہ جو اللہ چاہے وہ بھی اس میں لکھا جاتا ہے۔ اس کی جڑ دودھ جیسے سفید پتھر کی بنی ہوئی ہے اور اسے ایک فرشتہ گود میں لئے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ اسے دن میں تین سو ساٹھ مرتبہ دیکھتا ہے۔ اب صرف ایک منٹ کیلئے رکواور غور کرو کہ کیا تمہارا دماغ ان وضاحتوں کو سمجھ سکتا ہے کیا میں تم کو یہ عظمتیں سمجھا سکتا ہوں؟ کبھی بھی نہیں کسی مخلوق کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ It's impossible!
تمہیں یاد ہے کہ میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ دنیا کے تقریباً سبھی کلچرز میں یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کسی بہت بڑی طاقت نے چند الفاظ سے کی تھی لیکن کوئی کلچر یہ نہیں بتا پایا تھا کہ وہ الفاظ کون سے تھے۔ یہ theoretical physics میں بھی ایک تھیوری ہے کہ آسمان اور زمین بننے سے پہلے بہت سی کائناتیں مختلف قوتوں کے درمیان تیر رہی تھیں مثلا force of gravity کے بغیر اور شاید کھربوں سال بعد ان forces میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ ایک big bang پیدا ہوتا ہے اب اس ٹکراؤ کی وجہ یا تو ناقابل تصور حد تک طاقتور کشش ثقل یعنی gravity ہو سکتی ہے یا پھر بقول اس تھیوری کے a force which is unknown to us۔۔
قرآن میں اس عظیم الشان قوت کا ذکر کم سے کم سات مرتبہ ملاہے کہ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا صرف یہ کہنا کافی ہوتا ہے کہ ہوجائے۔ پس وہ ہوجا تا ہے۔۔ آج تک کی ناقابل فہم اور طاقتور ترین فورس۔ کُن فیکون۔ کُن فیکون۔ کُن فیکون۔