Kun Fayakoon (2)
کُن فیکون (2)
سنو عبدالرحمن، تمہیں اس مقام پر پہنچ کر یوں نہیں لگتا ہے کہ جیسے دنیا کے تمام کونوں میں ایک ہی پیغام بھیجا گیا تھا؟ ہاں پیغام لانے والے مختلف تھے اور وہ مختلف وقتوں میں آئے لیکن پیغام بھیجنے والا ایک ہی تھا اور ایک بات بہت اچھے سے واضح ہو جاتی ہے کہ ایک علم اور بھی ہے جس کا دائرہ سائنس سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور جس علم پر دنیا کے 85% لوگ کسی نہ کسی صورت کسی نہ کسی شکل میں یقین رکھتے ہیں اور وہ علم ہے۔ مذہب!
لیکن یہاں پہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سا مذہب؟ اس وقت تو دنیا میں تین ہزار مختلف مذاہب موجود ہیں اور سبھی کے ماننے والے اپنے مذہب کو سچا مانتے ہیں۔ چلو چند بڑے مذہب اور پرانے فلسفوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟
یہودیت بلا شبہ بہت پرانے مذاہب میں سے ایک ہے۔ ان کے مطابق کائنات بنائی تو خدا نے ہے لیکن یہ زمین ایک چپٹی چیزہے جو پانی کے اوپر قائم ہے اور اوپر آسمان میں جنت اور زمین کے نیچے جہنم ہے۔ پھر عیسائیت اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے اور وہ لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ کائنات کا بنانے والا تو ایک خدا ہی ہے لیکن ان کے نزدیک تمام سورج چاند ستارے اس زمین کے گرد گھوم رہے ہیں اور یہ ساری تخلیق صرف اور صرف ساڑھے چھ ہزار سال پہلے ہوئی تھی اور اس سب کے علاوہ عیسائیت میں ساتویں دن خدا نے آرام کیا۔ پھر یونانی فلسفہ جو ڈھائی ہزار سال پرانا ہے۔
greeks بھی خدا کی تخلیق کو ہی مانتے تھے۔ اس فلسفے کا اثر آج بھی آپ کو نظر آئے گا۔ وہ یہی کہتے تھے کہ یہ کائنات خدا نے ہی بنائی ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اینڈرومیڈا andromeda نامی ایک دیوی آسمان پر اڑتی چلی جا رہی تھی اور جہاں جہاں وہ دودھ گراتی جا رہی تھی وہاں وہاں ایک دودھیا راستہ بنتا چلا جا رہا تھا۔ میں تمہاری دلچسپی کے لئے یہ بھی بتاتا ہوں کہ آج بھی اس دودھیا راستے کی مناسبت سے ہماری اپنی کہکشاں کا نام ملکی وے ہے جو یونانیوں نے رکھا تھا۔
پھر اس کے بعد ہندوازم، بدھ مت اور جین ازم کہتے ہیں کہ کائنات کا نہ تو کوئی آغاز ہے اور نہ ہی اس کا کوئی اختتام ہے۔ یہ ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ ہی رہی تھی۔ اگر یہودی مذہب سچ کہتا ہے تو پھر ایک ہی وقت میں چین میں دن اور امریکہ میں رات کیوں ہوتی ہے۔ چپٹی چیز پہ تو دنیا کے ہر ملک میں دن یا رات ایک وقت میں ایک ہی جیسے ہونے چاہیے تھے اور پھر یہ بھی بات ہے کہ اس وقت 4500 سیٹلائٹس ہماری دنیا کے گرد گھوم رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ زمین ایک چپٹی شے نہیں ہے پھر اگر عیسائیت سچ کہہ رہی ہے کہ یہ سب کچھ صرف 6500 سال پہلے ہوا تھا توGN-z11 کی روشنی تو ہم تک پہنچنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ یہ ناممکن ہوتا۔ لیکن اس سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جو خدا اس قدر وسیع و عریض کائنات کا خالق ہے وہ بھلا یہ سب کچھ بنانے کے بعد تھک کیوں گیا؟ اسے تو سب سے طاقتور سب سے almighty ہونا چاہیے تھا اور پھر اس عیسائیت کی مقدس کتاب یعنی بائبل کے پچاس versions ہیں تو پھر آخر کون سا version واقعی سچا ہے؟ ہم کون سا version درست لیں؟
اسی طرح اگر یونانی ٹھیک تھے تو پھر ملکی وے کے علاوہ ان دوسری کہکشاؤں کے اوپر یہ دودھ کس نے گرا دیا؟ جو در حقیقت کوئی دودھ نہیں ہے بلکہ ستاروں کی جھرمٹ ہے اور اگر ہندوازم، جین ازم اور بدھ مت سچ ہیں کہ یہ سب کچھ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا تو پھر کائنات کی تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور کیوں جا رہی ہیں؟ اور وہ بھی اتنی تیزی سے کہ صرف ہماری اپنی ملکی و ے ہی 21 لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے سفر کر رہی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ہر سفر کرنے والی چیز کا ایک آغاز ہوتا ہے اور ایک اختتام ہوتا ہے۔ اب یہاں پہنچ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ان تمام مذاہب کا علم بھی محدود ہے۔
ہاں ان میں پیغام شاید ایک ہی آیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں بہت کچھ بدل گیا البتہ ایک مذہب کے متعلق میں نے ابھی تم کو نہیں بتایا اور یہ وہ واحد مذہب ہے جس نے اپنی سچائی کا دعویٰ کیا ہے کہ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے عرب میں ایک مذہب سامنے آیا جسے اسلام کہتے ہیں۔ چند ہی سالوں میں یہ مذہب پورے عرب میں پھیل گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے باقی دنیا میں بھی اور آج عیسائیت کے بعد اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اب اسلام میں بھی تخلیق کے حوالے سے ایک ایسا ہی واقعہ ملتا ہے۔ سورۃ ھود میں قرآن کہتا ہے کہ وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھے دن میں تخلیق کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ لگتا ہے کہ قرآن پاک میں بھی یہ پیغام اسی پیغام بھیجنے والے کی طرف سے ہی آیا تھا۔ لیکن ایک چیز ہے جوقران کو ان باقی تمام کلچرز اور باقی تمام مذاہب کے کتابوں سے ممتاز کرتی ہے اور وہ اس کا ایک ایسا دعویٰ ہے جو کسی اور نے نہیں کیا۔ وہ دعویٰ جو actually اس کتاب کے بالکل شروع میں ہے۔ ہاں بھئی۔۔ سورۃ البقرہ میں قرآن کہتاہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔۔
اب یہ کافی بڑا دعویٰ ہے اور وہ لوگ جو اس کائنات کو کھوجنے کے لمبے سفر پر نکلے ہیں ان کی نظر سے اس دعوے کا بغیر دیکھے گزر جانا ممکن نہیں اور یہ وہ واحد کتاب بھی ہے جس کا پوری دنیا میں کوئی دوسرا ورژن نہیں ہے۔ ایک کتاب ایک ورژن اور ایک دعویٰ۔ یہ وہ دعویٰ ہے جو نہ کبھی تاریخ کی کسی ٹیبلٹ نے کیا اور نہ ہی کسی کلچر نے اور نہ ہی کسی مذہب نے۔ لہٰذا اس کتاب کومتعارف فرمانے والے شخص یعنی نبی محمد ﷺ کا بھی تخلیق کے حوالے سے نظریہ سنتے ہیں جو ان کی حادیث کی collection کی کتاب سنن ابن ماجہ میں لکھا ہوا ہے۔ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ تخلیق سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا؟ اس پر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ وہ لامکان میں تھا۔ جس کے اوپر اور نیچے کچھ بھی نہیں تھا اور پھر اس نے اپناعرش پانی پر تخلیق فرمایا۔ اب ہم اس مذہب کی باقی تعلیمات سے بھی یہ رہنمائی لے کر دیکھیں گے کہ یہ ہمیں کہاں تک لے کر جائے گا اور اس رہنمائی میں ہمارے دو بنیادی سورسز ہوں گے۔ اسلام کی مقدس کتاب یعنی قرآن کریم اور عرب کی وہ شخصیت جن پر یہ قرآن نازل ہوا تھا یعنی پیغام لانے والوں میں سے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ۔
سورۃ انبیاء میں ہے کہ کیا کافر نہیں دیکھتے کہ زمین اور آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں علیحدہ کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ اب یہ واقعی ہے تو صحیح کیونکہ یقینا جب زمین اور آسمان ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے ہوں گے تو ایک شدید ترین فورس کا دھماکہ ہوا ہوگا۔ وہی دھماکہ جس کی گونج آج بھی آتی ہے۔ وہی گونج جسے ہم کازمک ماکرو ویو cosmic microwave کہتے ہیں اور یہ دھماکہ کہکشاؤں کے تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور جانے کو بھی explain کرتا ہے کیونکہ یہ بہت بنیادی سی بات ہے کہ اگر تم کہکشاؤں کے ایک دوسرے سے دور جانے کو ریورس reverse کرکے دیکھو تو یہ لازم ہے کہ کسی زمانے میں اسے ایک جگہ ملا ہوا ہی پائیں گے۔
آؤ تھوڑی سی راہ نمائی مزیدلیتے ہیں۔ اس کتاب میں مزید یہ بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان کو ہم نے چھ دن میں پیدا کیا ہے تو یہ کون سے چھ دن تھے؟ کیا یہ ہمار ے چوبیس گھنٹوں والے دن تھے؟ بلکہ عیسائیت کی فلسفے پر تو ہمارا یہ بھی ایک اعتراض تھا کہ چھ دنوں کی تخلیق کو مانتے ہوئے ہمیں GN-z11 نظر ہی نہیں آنی چاہیے تھی اور عیسائیوں کی کتاب یعنی بائبل میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ یہاں پہ میں تم کو وہ ہورائزن پرابلم horizon problem یاد دلانا چاہتا ہوں جس کا شروع میں ذکر کیا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ کائنات میں وقت مختلف حصوں پر مختلف رفتار سے چل رہا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سائنس سے یہاں غلطی ہوئی ہے انہیں اس بات کو ایک پرابلم کے بجائے ایک انکشاف کا نام دینا چاہیے تھا کیونکہ قرآن پاک میں وقت کا کونسپٹ بڑا واضح ہے جو عیسائیت میں نہیں ہے۔ اور کہیں نہیں ہے۔