Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Asmano Ke Darwaze (2)

Asmano Ke Darwaze (2)

آسمانوں کے دروازے (2)

سورۃ الانفطار میں آیات دس اور گیارہ میں اللہ فرماتے ہیں کہ یقیناً تم پر کچھ نگہبان مقرر ہیں جو بہت باعزت لکھنے والے ہیں کہ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔

یہ آیت کراماً کاتبین سے منسوب کی جاتی ہے۔ کراماً کاتبین ہمارے قریب موجود فرشتوں میں سے دو فرشتے ہیں۔ یہ وہ فرشتے ہیں جو ہمارے تمام نامہ اعمال لکھ رہے ہیں۔ لیکن انہیں کراماً یعنی باعزت کیوں کہتے ہیں؟ کیونکہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا اللہ نے ان فرشتوں کو بہترین اخلاق عطا فرمائے ہیں۔ یہ قبیح اعمال کے وقت انسان سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

ابن جریر میں حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ انسان کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں تو آپ ﷺ نے دس فرشتوں کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک ایسا بھی تھا جو حلق کی حفاظت کرتا ہے دو وہ فرشتے کہ جو آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں اور حضرت علیؓ نے سے روایت ہے کہ ہر انسان کے ساتھ اس کی حفاظت کرنے والے فرشتے مقرر ہیں۔

اور اگر اللہ کی مرضی نہ ہو تو کوئی شخص کسی کو چاہ کر بھی قتل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی حفاظت کے لیے اللہ کے حکم سے فرشتے تعینات ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ فرشتے صرف دو حالتوں میں اس کے پاس سے ہٹتے ہیں۔ ایک تب کہ جب تقدیر میں لکھا ہوا پیش آ جائے یا پھر جب موت کا وقت آ جائے اور انہی نگہبان فرشتوں کا ذکر سورۃ الطارق میں بھی ہے کہ کوئی ایسا نہیں کہ جس پر نگہبان فرشتہ نہ ہو۔

لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے خاص لوگوں کے لیے حفاظت بھی خاص ہو جاتی ہے مثلاً سعد بن وقاصؓ نے احد کے موقع پر دیکھا کہ دو لوگ سفید کپڑوں میں ملبوس آپ ﷺ کو اپنی حفاظت میں لیے بڑی سختی کے ساتھ کافروں سے لڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کو میں نے نہ ہی کبھی اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی اس کے بعد دیکھا۔ سورہ سجدہ میں ہم پر مقرر ایک اور فرشتے کا ذکر ہے ارشاد ہے کہ کہہ دیں کہ تمہیں موت کا فرشتہ موت دے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔

موت کے فرشتے کو قرآن پاک میں صرف ملک الموت یعنی موت کا فرشتہ ہی کہہ کر بلایا گیا ہیں اور ابن ابی حاتم کی روایت میں آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ ملک الموت زمین کے تمام بحری اور زمینی علاقوں سے پوری طرح واقف ہے وہ اس میں رہنے والوں کے بارے میں روزانہ پانچ مرتبہ تحقیق کرتے ہیں کہ ان میں سے کس کی موت کا وقت آ چکا ہے لیکن اللہ کے حکم کے بغیر وہ کسی کی روح کو قبض نہیں کر سکتے۔

اسلامی لٹریچر میں موت کے فرشتے کو عموماً حضرت عزرائیلؑ کے حوالے سے منصوب کیا جاتا ہے اور تمہاری دلچسپی کے لیے بتا دیتا ہوں کہ اسلام سے سکھ مذہب میں اڈاپٹ adapt کی جانے والی چیزوں میں یہ نام بھی شامل ہے جہاں گرونانک کے پہلے اور پانچویں محل میں وہ عزرائیل نامی ایک فرشتے کا ذکر کرتے ہیں جو لوگوں کی روحیں نکال رہا ہے۔

سورۃ النازیات میں ملک الموت کے زیر حکم مزید دو قسم کے فرشتوں کے متعلق اشارے ہیں۔ قرآن کھولو اور سورہ نازیات کی پہلی پانچ آیات کو پڑھو۔ تم کو پانچ نام نظر آئیں گے۔ نازیات، ناشتات، سابحات، سابقات اور مدبرات۔ ان میں نازیات وہ فرشتے ہیں جو ڈوب کر موت کے وقت جسم سے سختی سے جان نکالتے ہیں اور ناشتات وہ فرشتے ہیں جو بہت نرمی اور آہستگی سے انسان کی جان نکالتے ہیں۔ پھر موت کے بعد قبر کے فرشتوں کا تفصیلی ذکر احادیث کی کتابوں میں ملتا ہے مثلاً نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو دفنایا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ اور نیلی آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں جن میں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔

عبدالرحمٰن۔ میں بھی کہاں موت کے فرشتوں تک چلا گیا۔

سوال یہ اٹھانا ہے کہ فرشتے آخر ہیں کہاں پر؟

ابن ماجہ کی حدیث کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے آسمان میں جو دیکھا ہے وہ تم نہیں دیکھ سکتے اور میں نے وہاں جو سنا ہے وہ تم نہیں سن سکتے۔ آسمان چرچراتا ہے اور اس کا حق ہے کہ وہ چرچرائے۔ اس میں چار انگلیوں کے برابر کی جگہ بھی خالی نہیں مگر یہ کہ وہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنا ماتھا ٹکائے اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز نہ ہو۔

لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کائنات کی ان بے کراں وسعتوں میں موجود فرشتے کیا کر رہے ہیں؟

کیا انہیں رب کریم کی تسبیح اور اسے سجدہ کرنے کے علاوہ بھی کچھ امور دیئے گئے ہیں؟

تم کو اس فرشتے کے بارے میں یاد ہے کہ جو ماں کے پیٹ میں ہماری حفاظت کرتا تھا یا پھر وہ فرشتہ جو ہمارے ہوش سنبھالنے تک ہماری پروٹیکشن کرتا رہا۔ یقیناََ یہ فرشتے اور بھی کام کرتے ہیں جن کا حکم دیا جاتا ہے۔ اللہ کریم نے اس مخلوق کے ذمہ مختلف کام لگائے ہیں جو وہ صبح سے شام تک کرتے ہیں یہاں تک کہ بادلوں کے گرجنے اور ہواؤں کے چلنے پر بھی۔ ان کا اختیار ہے۔

تمہیں یاد ہے جب نبی اکرم ﷺ کے ساتھ طائف والوں نے بدسلوکی کی تھی تو آپ ﷺ کے پاس وہ فرشتہ آیا جسے اللہ نے پہاڑوں کے امور پر فائز کیا تھا اور کہا کہ اے نبیؐ اگر آپ چاہیں تو میں ان لوگوں کے دونوں اطراف کے سنگلاخ پہاڑوں کو لا کر ان پر گرا دوں؟

قرآن پاک میں فرشتوں کا دوسرے انبیاء اور غیر انبیاء کے ساتھ گفتگو اور ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا بھی ذکرہے مثلاً۔

سورۃالحجر، فرشتے کی حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ بات چیت۔

سورۃالحجر فرشتے کی حضرت نوحؑ کے ساتھ بات چیت۔

سورۃ آ ل عمران، فرشتے کا حضرت ذکریہؑ کو آواز دے کر خوشخبری سنانا۔

سورۃ مریم، فرشتے کا حضرت مریمؑ کو عیسیٰؑ کی خبر دینا۔

سورۃ ھود، ابراہیمؑ کی بیوی سارہؑ کو ایک بیٹے اسحاق اور ان کے بعد یعقوب کی خبر دینا۔

اب مریمؑ اور سارہؑ نبی نہیں تھی لیکن غیر نبی انسانوں کے ساتھ گفتگو کے وقت فرشتے ہمیشہ انسانی شکل میں ہوتے ہیں۔

لیکن۔

اب بہت دیر ہوگئی ہے عبدالرحمٰن۔ باقی کل لکھوں گا۔

Check Also

Kashmiri Bhaiyon Ke Naam

By Najam Wali Khan