Punjab Bar Council Aur Jaali Wukla Ka Khatma
پنجاب بار کونسل اور جعلی وکلاء کا خاتمہ
جعل سازی ایسا فعل ہے جو دنیا کے ہر خطہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں پایا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام بھی جعل سازی سے محفوظ نہیں رہ پاتیں۔ آئے روز ہمیں انتظامی آفیسر، ڈاکٹر، پولیس آفیسر، آرمی آفیسرکا لبادہ اوڑھے جعل ساز پکڑنے جانے کی خبریں دیکھنے سننے کو ملتی ہیں۔ پچھلے ماہ بھارت میں ایک جعل ساز پکڑا گیا جو گذشتہ پانچ سال سے بطور جج ثالثی ٹریبونل چلا رہا تھا۔ لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ جعل سازی کا سدباب ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جعل سازی کی روک تھام اور سدباب کے لئے قوانین نافذ کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں وکالت کے شعبہ میں متعدد ایسے جعل ساز برآمد ہوئے ہیں جو دہائیوں سے کالا کوٹ پہنے قانون و عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے۔ سال 2020 کا بہت ہی مشہور و معروف واقعہ جب پنجاب بار کونسل کی پانچ سالہ ممبرشپ کے لئے منعقدہ انتخابات میں شیخوپورہ سیٹ سے امیدوار شاہنواز اسماعیل بوجہ جعلی ڈگری نااہل قرار پائے اور پنجاب بار کونسل کے رولز کے مطابق امیدوار رانا سیف اللہ خان کی فتح کا اعلان کیا گیا۔
یاد رہے صوبائی بار کونسلز، لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ، 1973کے تحت قائم ہیں۔ اس ایکٹ کے سیکشن 5Aکے مطابق ممبر بار کونسل بننے کی اہلیت یہ ہے امیدوار کا صوبائی بار کونسل میں بطور ایڈووکیٹ ہائیکورٹ رجسٹرڈ اور بطور وکیل دس سال کاتجربہ ہونا لازم ہے۔ جعلی ڈگری کے حامل موصوف کی بار کونسل میں رجسٹریشن کیسی ہوئی؟ کئی دہائیوں تک موصوف نے عدالتوں سے کتنے ہی سائلین اور مخالفین کو جزاء سزائیں دلوائی ہونگی؟ یہ بہت تلخ سوالات ہیں۔ بہرحال اسی ایک مثال سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جعل سازی ہمارے معاشرے میں کس حد تک پھیل چکی ہے۔
دیر آید درست آید پاکستان بار کونسل سمیت تمام صوبائی بار کونسلز بالخصوص پنجاب بار کونسل نے جعل سازی کے خاتمہ کے لئے انتہائی احسن اقدامات اور اصلاحات نافذ کی ہیں۔ جیسا کہ وکالت کے شعبہ میں متمنی طلباء کے لئے عمر کا تعین، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعہ لاء ایڈمیشن ٹیسٹ اور بعد ازاں امتحان کامیابی لاء گریجوایٹ اسسمنٹ ٹیسٹ لازم قرار پائے ہیں۔ وکلاء کی رجسٹریشن کے مراحل کو جعل سازی سے پاک کرنے کے لئے کیو سہولت پروگرام کو نافذ کردیا گیا۔ کیو سہولت کی بدولت رجسٹریشن کے مراحل کو فول پروف بنانے کی ہم ممکن کوشش کی گئی ہے۔
پنجاب بار کونسل کی آن لائن کیو سہولت کے ذریعہ نہ صرف نئے وکلاء کا اندراج کیا جارہا ہے بلکہ پہلے سے رجسٹرڈ شدہ وکلاء حضرات کی تصدیق بھی کی جارہی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وکیل کا دعویٰ کرنے والے ہر شخص کی رجسٹریشن کیو سہولت کے ذریعہ لازم قرار پاچکی ہے۔ کیو سہولت رجسٹریشن کے تمام مراحل طے کرنے والے وکلاء حضرات کو کیو آر کوڈ سے مزین کارڈ کا اجراء کیا جارہا ہے۔ کیو سہولت پروگرام کے تحت سینکڑوں جعلی وکلاء کی رجسٹریشن ختم کرکے انکے خلاف مقدمات کا اندراج کروایا گیا ہے۔
پنجاب بار لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل 2023کے تحت رولز میں ترامیم کی گئیں ہیں۔ جسکے تحت کوئی درخواست دہندہ جس نے بار کونسل یا بار کونسل کی کسی کمیٹی کے سامنے جعلی دستاویز، انڈرٹیکنگ، سرٹیفکیٹ یا حلف نامہ جمع کرایا، اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی متعلقہ دفعات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ ایسا شخص جسکا بارکونسل کے رول پر بطور وکیل اندارج نہ ہو مگر وہ کسی فورم یا عوامی مقامات، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، واٹس ایپ وغیرہ پر خود کو بطور وکیل ظاہر کرتا ہو تو ایسے شخص کے برخلاف لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 کے سیکشن 58 کے تحت فوجداری مقدمہ چلایا جا ئے گا جسکی سزا تین سال تک قید ہوسکتی ہے۔
اسی طرح پاکستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسل میں بطور ایڈووکیٹ رجسٹرڈشدہ شخص کے علاوہ کوئی بھی شخص وکلاء کے لئے مخصوص یونیفارم نہیں پہنے گا۔ اگر کوئی شخص بشمول کسی ہوٹل / ریسٹورنٹ یا کسی تجارتی ادارے کے ملازمین وکلاء کا مخصوص یونیفارم پہنیں گے، تو انکے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 419 کے تحت دھوکہ دہی کے جرم کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
کسی شخص پر لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ، 1973، پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز رولز، 1976، پنجاب لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل رولز، 2023 کے تحت لگائے گئے الزامات کے برخلاف مقدمہ مقامی عدالت کے ذریعہ چلایا جائے گا۔ جعل سازی کی روک تھام کے لئے پنجاب بار کونسل کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ اس تحریر کے آخیر میں اپنی چند تجاویز پیش کرنا چاہوں گا کہ پنجاب بار کونسل کی ویب سائٹ پر موجود رجسٹرڈ وکلاء کی فہرست ہر وقت آپ ڈیٹ رہنی چاہیے تاکہ اصلی و جعلی وکیل کی شناخت کو چند سیکنڈز میں پرکھا جاسکے۔
عدالتوں میں وکالت نامہ، دعویٰ و جوابِ دعویٰ پر وکلاء حضرات کے نام کیساتھ بار کونسل سے جاری کردہ لائسنس نمبر لکھنا لازم قرار دیا جائے۔ صوبہ پنجاب میں ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کا نظام کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے۔ لہذا عدالتی سافٹ ویئرز کو پنجاب بار کونسل کی ویب سائٹ سے منسلک کیا جانا چاہیے، جسکی بدولت عدالتوں میں دائرگی کے وقت رجسٹرار حضرات کو پابند کیا جائے کہ دائریگی نمبر الاٹ کرنے سے پہلے وکیل کے لائسنس نمبر کی تصدیق کریں اور جعل سازی کی صورت میں فی الفور بار ایسوسی ایشن کے صدر کی مدعیت میں جعل ساز کے خلاف درج بالا دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ ایسے جعل ساز شخص کی تشہیر پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا پر کی جانی چاہیے۔