Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Mutahir Khan
  4. Dimaghi Irtiqa Ke Panch Ehad

Dimaghi Irtiqa Ke Panch Ehad

دماغی ارتقا کے پانچ عہد

انسانی دماغ صدیوں سے سائنسی تحقیق کا سب سے پیچیدہ اور پراسرار میدان رہا ہے۔ کبھی اسے ایک جامد عضوی سمجھا جاتا تھا، مگر جدید نیوروسائنس نے یکسر مختلف تصویر پیش کی ہے ایک ایسا دماغ جو مسلسل بنتا، بگڑتا، سنورتا اور نئے سانچوں میں ڈھلتا رہتا ہے۔ تازہ ترین جامع تحقیق نے انسانی ذہنی ارتقا کے پانچ واضح "عہد" متعین کر دیے ہیں، جن میں چار بڑے فیصلہ کن موڑ 9، 32، 66 اور 83 سال کی عمر میں رونما ہوتے ہیں۔ یہ وہ عمرانی مقام ہیں جہاں دماغ گویا ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور پورا نظام اپنی سمت بدلنے لگتا ہے۔ یہ تحقیق نہ صرف دماغی نشوونما کے بارے میں روایتی مفروضوں کو چیلنج کرتی ہے بلکہ انسانی شخصیت، ادراک، فیصلہ سازی، سماجی رویوں اور بڑھاپے کے عمل کو سمجھنے کے لیے ایک نئی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔

پیدائش سے 9 سال تک کا دور دماغ کے لیے ایک ہنگامہ خیز تعمیراتی مرحلہ ہے۔ اس عرصے میں اعصابی خلیوں کے درمیان کروڑوں نئے روابط بنتے بھی ہیں اور ختم بھی ہو جاتے ہیں۔ اسے "نیورونل پروننگ" یعنی دماغی شاخ سازی کی چھانٹی کا مرحلہ کہا جاتا ہے۔ بچہ اپنے حواس، زبان، حرکات، جذبات اور ماحول سے تعامل کے ذریعے ذہنی نقشے تشکیل دیتا ہے اور دماغ کے مختلف حصے مخصوص ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 9 سال کی عمر ذہنی ارتقا کا پہلا بڑا سنگ میل ہے جہاں ابتدائی ساختی تبدیلیوں کا پہلا دور مکمل ہوتا ہے اور دماغ نسبتاً منظم فعالیت کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ اسی بنیاد پر آنے والی ذہانت اور سیکھنے کی پوری عمارت قائم ہوتی ہے۔

بچپن سے نکل کر دماغ نوجوان دور میں داخل ہوتا ہے، مگر یہ مرحلہ محض عمر کا نہیں بلکہ دماغی کارکردگی کے ارتقائی سفر کا بھی ہے۔ اس عرصے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت، خطرے کا تجزیہ، جذباتی ضبط، تخلیقی قوت، سماجی فہم اور مشاہداتی دانائی تیزی سے بڑھتی ہے۔ تحقیق کے مطابق 32 سال کی عمر نوجوان دماغ کے ارتقا کا نقطۂ عروج ہے۔ اگرچہ عمومی تصور یہی تھا کہ دماغ 18 یا 20 سال کی عمر میں بالغ ہو جاتا ہے، لیکن جدید تحقیق کے مطابق اصل دماغی بلوغت 30 کی دہائی میں پہنچ کر مکمل ہوتی ہے، خصوصاً 32 سال کے آس پاس جب دماغ اپنی تنظیم، کارکردگی اور داخلی توازن کی بہترین سطح اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی شخصیت پختہ سانچے میں ڈھلتی ہے۔ ذہانت، سوچنے کا اسلوب، رویوں کی ساخت، فیصلہ سازی اور اخلاقی ترجیحات تک ایک باقاعدہ نظام میں سمٹ آتے ہیں۔

32 سال کے بعد شروع ہونے والا دور استحکام، مہارت اور عملی دانائی کا زمانہ ہے۔ اس عرصے میں دماغ نسبتاً پُرسکون مگر انتہائی مستحکم ہوتا ہے۔ تجربے، مشاہدے، کوشش اور غلطی کے عمل سے انسان عملی حکمت کی بلندیوں تک پہنچتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ 32 سے 66 سال تک دماغ کئی علمی اور مہارتی صلاحیتوں کو اپنی بہترین سطح پر پہنچا دیتا ہے جن میں تجزیاتی سوچ، زبان کی مہارت، سماجی فہم، پیشہ ورانہ تجربہ اور پیچیدہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت شامل ہیں۔ اسے "کگنیٹیو فارم" کا دور قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ یادداشت میں ہلکی کمی محسوس ہو سکتی ہے لیکن ذہنی پختگی، فیصلہ سازی اور احساسِ ذمہ داری کی قوت عروج پر رہتی ہے۔

زندگی کے 66ویں برس کے قریب انسانی دماغ ایک اور بڑی تبدیلی سے گزرتا ہے۔ اسے ابتدائی بڑھاپے کا ذہنی افق کہا جاتا ہے۔ اعصابی روابط کی رفتار کم ہونے لگتی ہے، خون کی ترسیل میں کمی آتی ہے اور چند حصوں میں تنزلی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں یادداشت کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے، نئی معلومات سیکھنے میں وقت بڑھ جاتا ہے مگر تجربے کی گہرائی اور زندگی کی دانائی بڑی حد تک برقرار رہتی ہے۔ یہ دور ذہنی صحت کے لحاظ سے نہایت حساس ہے۔ صحت مند طرزِ زندگی، سماجی سرگرمیاں، جسمانی ورزش اور ذہنی مشقیں دماغی تنزلی کی رفتار کم کر سکتی ہیں، بعض صورتوں میں اسے روک بھی سکتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق 83 سال کی عمر ذہنی بڑھاپے کا آخری فیصلہ کن موڑ ہے۔ اس مرحلے میں اعصابی خلیے کمزور پڑتے ہیں، رابطے گھٹتے ہیں اور دماغی حجم میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس عمر میں توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، تازہ یادداشت متاثر ہوتی ہے اور فیصلہ سازی کی رفتار کم ہو جاتی ہے، مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ کئی افراد اسی عمر میں غیر معمولی ذہنی شفافیت اور روحانی گہرائی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو شاید تجربے اور زندگی کی گہری تفہیم کا نچوڑ ہوتی ہے۔

یہ تحقیق صرف سائنسی دریافت نہیں بلکہ انسانی زندگی کے پانچ بڑے ادوار کی نئی تشریح بھی ہے۔ ہم عام طور پر زندگی کو جوانی، درمیانی عمر اور بڑھاپے کی روایتی تقسیم میں دیکھتے ہیں، مگر نیوروسائنس نے اسے زیادہ لطیف اور حقیقت کے قریب بنا دیا ہے۔ اس کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ دماغ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے، ہر عمر کا اپنا ذہنی جمال اور اپنی مخصوص ذہنی طاقت ہوتی ہے اور بڑھاپا دماغ کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ ایک نئے ذہنی اسلوب کا آغاز ہے۔ جدید تحقیق ہر دور میں ذہنی صحت کے لیے نئی حکمتِ عملی بھی تجویز کرتی ہے۔ بچپن میں زیادہ سیکھنے کا ماحول، نوجوانی میں جذباتی نظم، بالغ دور میں ذہنی وسعت، 60 کی دہائی کے بعد صحت مندانہ سرگرمیاں اور بڑھاپے میں ذہنی ارتباط کو برقرار رکھنے کے طریقے اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔

انسانی دماغ اپنی پیچیدگی میں ایک پوری کائنات ہے۔ یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ دماغ کا ارتقا کسی ایک موڑ پر آکر نہیں رک جاتا بلکہ پوری زندگی ایک مسلسل سفر کی صورت جاری رہتا ہے۔ 9، 32، 66 اور 83 سال کے یہ چار موڑ دراصل زندگی کے نئے ابواب ہیں جن میں ہر دور اپنے اندر نئی فہم، نئی صلاحیت اور نئی شناخت لیے ہوتا ہے۔ انسانی ذہن اپنی پوری زندگی میں پختہ بھی ہوتا ہے، کمزور بھی، مگر کبھی جامد نہیں بنتا۔ شاید یہی انسانی عظمت کا روشن ترین پہلو ہے کہ ذہنی تکمیل عمر کے ہر مرحلے میں ایک نئی صورت اختیار کرتی رہتی ہے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail