Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Burhan Ul Haq
  4. Imam Ahmad Raza Khan Aik Hama Jehat Shahsiat (1)

Imam Ahmad Raza Khan Aik Hama Jehat Shahsiat (1)

امام احمد رضا خان ایک ہمہ جہت شخصیت (1)

اس عارضی زندگی میں جن بزرگانِ دین نے اپنی بزرگیت و تصرفات و کرامت سے ہدایت کے چراغ کو پوری دنیا میں روشن کیا، ان میں سے کچھ ایسی انمول ہستیاں بھی موجود ہیں جنہیں دنیا کبھی ان کی علمی کارہائے نمایاں سے یاد کرتی ہے تو کبھی اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے تبلیغی خدمات کی حیثیت سے۔ ان بزرگان دین کو ان کے اخلاق و کردار اور روحانی مقام و مرتبے کے لحاظ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

ان بزرگوں نے اپنے علم اور تقویٰ و پرہیزگاری سے اسلام کی تعلیمات کو عام کیا اسلام کی ترویج و اشاعت کی اور کفر و شرک اور بدعت و خرافات کا قلع قمع کیا۔ اس حیثیت سے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان ایک ممتاز شناخت کے حامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے ان کو مجدد دین و ملت کے نام سے مانا ہے۔ زیر نظر قسط وار مضمون میں ان کی حیات و خدمات کے چند اہم گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بن مولانا نقی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں بن شاہ محمد اعظم خاں بن شاہ محمد سعادت یار خاں بن شاہ محمد سعید ﷲ خاں علیہم الرحمۃ آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ محمد سعید ﷲ خاں علیہ الرحمہ قندھار افغانستان کے قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے مغلیہ دور حکومت میں لاہور تشریف لائے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، لاہور کا شیش محل ان کی جاگیر تھا۔

لاہور سے آپ دہلی تشریف لائے آپ کی شجاعت و بہادری پر آپ کو شجاعت جنگ کا خطاب بھی ملا، ان کے صاحبزادہ حضرت شاہ محمد سعید یار خاں علیہ الرحمہ کو مغلیہ سلطنت نے ایک جنگی مہم سر کرنے روہیل کھنڈ بھیجا جس میں آپ نے فتح پائی اور پھر یہیں آپ کا وصال ہوا، ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد اعظم خان علیہ الرحمۃ پہلے تو حکومتی عہدہ پر فائز رہے لیکن پھر امور سلطنت سے سبکدوش ہو کر عبادت و ریاضت میں مصروف رہنے لگے اور آپ نے شہر بریلی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ اس شہرِ بریلی میں مولانا شاہ محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے یہاں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔

ولادت با سعادت: اعلٰی حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، ولی نِعمت، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دِین و مِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں 10 شَوَّالُ الْمُکَرَّم 1272ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق 14 جون 1856 کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (1272ھ) ہے (حیاتِ اعلٰی حضرت، ج1، ص58، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی) آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔

نام و نسب: آپ کا تاریخی نام "المختار" (1272ء) ہے اور آپ کا اسم گرامی "محمد" ہے۔ اور آپ کے جد امجد آپ کو احمد رضا کہہ کر پکارا کرتے اور آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغان کے جد امجد قیس عبدالرشید کے پوتے "شرجنون" الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔ (شاہ احمد رضا خان بڑہیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی، ص35)

تکمیل تعلیم و فتوٰی نویسی: ان کی پیشانی سے نورِ سعادت کی کرنیں ایام طفولیت ہی سے چمک رہی تھیں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ ایامِ طفولیت سے ہی حق پسندی و حق شناسی کا مجسمہ تھے۔ ایک مرتبہ اپنے استادِ گرامی کے پاس جلوہ افروز تھے کہ اسی اثناء میں ایک بچے نے استاد محترم کو سلام کیا تو جواباً استاد نے کہا: جیتے رہو۔ فوراً انہوں نے لقمہ دیا کہ استاد محترم! یہ تو جواب نہ ہوا۔ جواب تو وعلیکم السلام ہے۔ اس طرح کا اعتراض اور جواب سن کر استاد گرامی ششدر رہ گئے اور اس حق گوئی پر بےحد خوش ہوئے۔

آپ کو خداداد ذہانت حاصل تھی اسی وجہ سے چھ سال کے عمر میں ہی آپ نے بریلی شریف میں منعقدہ پروگرام موسوم بہ "محفلِ میلاد النبی ﷺ" میں میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر ایک عظیم الشان خطاب فرمایا۔ پھر آپ نے اردو، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں مرزا غلام قادری بیگ سے حاصل کیں اور اکیس علوم کی تعلیم آپ نے اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان سے حاصل کی۔ ان میں سے کچھ رقم قلم ہیں۔ علم تفسیر، علم حدیث، علم العقائد و الکلام، علم فلسفہ، کتب فقیہ حنفی و شافعی مالکی و حنبلی، اصولِ فقیہ، اصولِ حدیث، علم تکسیر، علم نجوم وغیرہ۔

اور آٹھ سال کی عمر میں ہی آپ نے فن نحو کی مشہور و معروف کتاب "ہدایہ النحو" کی عربی شرح لکھی۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کے عمر میں یعنی 14؍ شعبان المعظم 1286ھ بمطابق 19؍ نومبر 1869ء کو جملہ مروجہ علوم و فنون سے فارغ التحصیل ہوئے اور "العلماء ورثتہ الانبیاء" کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا۔ اسی دن آپ نے رضاعت کے متعلق پہلا فتویٰ لکھا، جواب بالکل درست تھا، والد ماجد علامہ نقی علی بریلوی (م1297ھ) نے خوش ہو کر فتویٰ نویسی کی اجازت دے دی اور مسند افتا پر بٹھایا۔

پروفیسر محمود احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: "مولانا احمد رضا خاںؒ نے تیرہ سال دس مہینے اور چار دن کی عمر میں 14 شعبان 1286ھ کو اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغاز کیا۔ سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت ملی۔ پھر جب 1297ھ میں مولانا نقی علی خان کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ آپ کے فتویٰ کا انداز آپ کے کتب فتویٰ سے کیا جا سکتا ہے۔ (حیات مولانا احمد رضا خان بریلوی، از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد، مطبوعہ کراچی ص56)

جاری ہے۔

Check Also

Ye Roshni Fareb Hai

By Farhat Abbas Shah