Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Wo Warq Tha Dil Ki Kitab Ka

Wo Warq Tha Dil Ki Kitab Ka

وہ ورق تھا دل کی کتاب کا

ایک تو مجھے یہ محمد اقبال دیوان کی سمجھ نہیں آتی۔ آج ان کی تیسری کتاب پڑھنے کے بعد بھی میرے تاثرات وہی ہیں، جو پہلی دو کتابوں کے بعد تھے۔ ویسے تو میرے استاد جی نے کہا تھا کہ کسی مصنف کی ایک ہی کتاب پڑھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کیسا لکھتا ہے سارا کام پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر ہم اگر استادوں کی بات مانتے ہوتے تو آج کامیاب نہ ہو جاتے؟ خیر چھوڑیں یہ سب باتیں اور تھوڑا اس کتاب کے بارے سن لیں۔

بھائی مان لیا کہ مصنف کا تعلق جونا گڑھ کے دیوان خانوادے سے ہے۔ جس کی بنا پر آپ کو بہت سی وہ آسائشیں حاصل رہیں، جو کسی عام انسان کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ پھر تعلیم امریکہ میں حاصل کی تو مختلف تہذیبوں کا بھی آپ کو گیان حاصل ہے۔ بیوروکریٹ بھی رہے تو حکومتی راہداریوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ ساٹھ ممالک کی سیر بھی آپ کے تمغوں میں اضافہ کرتی ہے۔ فلمی دنیا اور موسیقی کے بھی انتہائی شوقین ہیں۔ جس کا اظہار جا بجا آپ کی تحریروں میں نظر آتا ہے

اگر آپ کی کتاب کی بات کی جاۓ تو ان کا حال درج بالا پیراگراف کی طرح ہی ہوتا ہے۔ سنانے کو آپ کے پاس ہزار ہا کہانیاں ہوتی ہیں، بلکہ کہانیوں سے زیادہ وہ معلومات لگتی ہیں۔ مگر ان تمام معلومات کو ایک کہانی بنانا یا کرداروں کو کہانی میں سمونا، اس میں آپ عاری ہیں۔

اب اس کتاب کی بابت ذرا سنیے

اس کا مین کردار ایک عام سے نائی کا کردار ہے، جس کا نام "بالو باربر" ہے۔ اب جنہوں نے شاہ رخ اور عرفان خان کی فلم "بلو باربر" دیکھی ہے انہیں ہر دو کرداروں میں بہت مماثلت دیکھنے کو ملے گی۔ اچھا اس کے بعد جو ہیروئین ہے وہ ایک جوان، چلبلی سی "جن زادی" ہے جس کا آئی کیو آئنسٹائن سے بھی زیادہ ہے اور وہ اس گنوار نائی سے محبت کر بیٹھتی ہے۔ ٹھیک ہے۔ اس طرح کے معاملات ہو جاتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو ساری باتیں مصنف نے ہیرو کے منہ سے کہلوانی تھی وہ کسی جاہل کے بس کی بات تو تھی نہیں، تو ہر دو عاشقوں کے بیچ کی خلیج پاٹنے کے لیے مصنف ایک معجون علمی درجہ چہارم طلائی متعارف کرواتے ہیں، جسے کھا کر انسان دنیا کے ہر علم میں طاق ہو جاتا۔

اب ایک اور مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ جن ناری مخلوق ہوتی ہے تو عاشقوں کا ملاپ کیسے ہو؟ اس کے لیے مصنف جن زادی کے بازو پر بار کوڈ بنا دیتے ہیں۔ جن کو کم زیادہ کرنے سے وہ کچھ کچھ انسانوں کے روپ میں آ جاتی ہے تا کہ وصل میں آسانی ہو۔

اس کے بعد استاد جی تقریریں کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان تقاریر میں وہ اپنے ملک کے قریب قریب ہر مسئلہ کا حل پیش کر دیتے ہیں (میری ناقص راۓ میں کتاب لکھی ہی ان تقاریر کے لیے گئی ہے باقی سب بہانہ ہے)۔ ان تقاریر میں پاکستان میں ڈویژنز کو صوبوں میں تبدیل کرنا، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی تقرری، الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں، تحفظ حقوق کے کمیشن کا قیام، عدالتوں کا نظام، پولیس فورس کی تشکیل وغیرہ وغیرہ۔ پھر جن زادیوں کے منہ سے شادی کے مسائل کو ایڈریس کیا گیا ہے۔

دیکھیں مصنف کے وسیع علم اور تجربے کو دیکھتے ہوۓ حکومت وقت کو ضرور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے، مگر ایک ناول کے اندر یہ تمام بے ربط سی باتیں کچھ معنے نہیں رکھتی۔

اس کے بعد ایک اور چیز جو ناول سے دلچسپی ختم کر دیتی ہے وہ مصنف کا "بہت زیادہ بے جا علم ہے"۔ بیشک مصنف کو ہر چیز کا پتہ ہے کہ کپڑوں کا اسٹائل شروع ہی اٹلی سے ہوتا ہے اور دن کے کس وقت کون سا کپڑا کیسے پہننا چاہیے۔ فرانس دنیا میں سٹائل آئیکون مانا جاتا ہے۔ ان کے بڑے بڑے برینڈز کے بیگ، پرفیومز، شراب وغیرہ وغیرہ ہر چیز کا پتہ ہے۔ تھائلینڈ میں اگر کیڑے مکوڑے کھاۓ جاتے ہیں تو جاپانی کیسے اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ مطلب اس طرح کی ہزار ہا معلومات جو کہ بہت کام کی ہوتی ہیں، مگر کہانی سے میل نہیں کھاتی اور ناول کی چاشنی ختم کر دیتی ہیں۔

Check Also

Elon Musk Ka Vision

By Muhammad Saqib