Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Mera Daghistan

Mera Daghistan

میرا داغستان

کسی مشہور ادیب کا قول ہے کہ "اگر ایک ہی کتاب ایک ہزار مختلف لوگ پڑھیں گے تو وہ ایک ہزار کتابوں میں شمار ہوگی"۔

اس قول سے میں سر اختلاف نہیں کر سکتا، کیونکہ ایسا مشاہدہ انسان کو آۓ دن ہوتا رہتا ہے۔ کتابیں انسان کے ساتھ عجیب ہی برتاؤ کرتی ہیں۔ اب ذرا اس کتاب کے بابت سن لیجیے۔ پہلے پہل جب میں نے اسے پڑھنے کے لیے اٹھایا تو یہ مجھے عجیب سطحی سی کتاب لگی اوپر سے اس کا پیش لفظ مستنصر حسین تارڑ نے لکھا تو اس نے اور ہی دل کھٹا کر دیا۔ کوئی ستر صفحات پڑھنے کے بعد بھی جب یہ کتاب مجھے اپنی گرفت میں نہ لے سکی تو میں نے بھاری دل کے ساتھ یہ کتاب چھوڑ دی۔ اسی اثنا میں کوئی چھ ماہ گزر گۓ۔ لائیبرری چھانتے چھانتے جب دوبارہ یہ کتاب میرے سامنے آئی تو میں نے سوچا کچھ بھی ہو لائیبریری میں آئی ہوئی کتاب پڑھنا مجھ پر عین واجب ہے تو چھوڑ تو میں اسے سکتا نہیں، چلو ایک بار پھر کوشش کر دیکھتے ہیں۔

اب جب میں نے یہ کتاب اٹھائی تو یہ مجھے الگ ہی وادیوں میں لے گئی اور آکاش بیل کی مانند مجھ سے لپٹ گئ۔ میں حیران و پریشان (خوشی سے شاداں) کتاب پڑھتا گیا پڑھتا گیا، مگر اس کایا کلپ کی کچھ خاص سمجھ نہ آسکی۔ گو کہ تارڑ کے الفاظ۔

"بڑی کتابیں بڑی عورتوں کی طرح ہوتی ہیں۔ جب تک آپ کا تجربہ ان کے ہم پلہ نہیں ہوتا، آپ انھیں نہیں سمجھ سکتے"

کسی حد تک میری پریشانی کا ازالہ کر رہے تھے، مگر اس گتھی کو کسی اور وقت سلجھانے کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ آئیے اب ذرا اس بڑی سی کتاب پر روشنی ڈالتے ہیں۔

دل تو میرا یہ چاہ رہا ہے کہ اس کتاب کے اوپر میں کوئی آٹھ دس صفحات کا مضمون لکھوں کہ یہ کتاب واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اور ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہے۔ جس سے قاری چشم پوشی کر سکتا ہے۔ مگر یہاں اس کتاب کا صرف تعارف کروانا مقصود ہے تاکہ لوگ اس خوبصورت کتاب سے واقفیت حاصل کرکے اسے پڑھنے کی جستجو کریں۔

یہ کتاب مشہور آوار (ایک روسی قوم) شاعر رسول حمزہ توف کی پہلی نثر کی کتاب ہے۔ اگر اس کتاب کی ہئیت کی بات کی جاۓ تو وہ نثر کی کسی صنف پر بھی پورا نہ اترتے ہوۓ اس کی ہر صنف پر پورا اترتی ہے۔ جی ہاں یہ ایسی ہی گنجلک کتاب ہے۔ پوری کتاب میں مصنف اس بات پر بحث کرتا ہے کہ اس کتاب کو کیونکر لکھا جاۓ۔ اگر لکھنا مقصود ہی ہے تو کب کیسے اور کہاں پر لکھی جاۓ۔ اس بات کا جواب تلاشنے کے بعد اس کتاب کا مقصد بیچ میں آن ٹپکتا ہے۔ نام کے بارے میں تو مصنف خود کہتا ہے کہ۔

"میرا داغستان وہ نشیمن ہے، جہاں میرےخیالات، میرے احساسات اور میری امنگوں نے جنم لیا۔ یہ کتاب میرے ذہن کی پیداوار ہے اور میں"داغستان" کا بیٹا ہوں۔ کیا کوئی اور نام اس سے زیادہ موزوں، مناسب یا زیادہ صحیح ہو سکتا ہے؟"

اس کے بعد جب زبان کی بات آتی ہے تو مجھے اس بات کا جواب مل جاتا ہے کہ بڑی قومیں بڑی کیسے بنتی ہیں۔ اس جواب کے حصول کے لیے آپ کو یہ کتاب پڑھنا پڑے گی۔

اس کے بعد موضوع اچھوتا، صنف آہن و نازک، اسلوب دلکش و شاندار

اور آخر میں جب رسول حمزہ توف ناشر، ایڈیٹر، مترجم، نقاد اور قاری سے ہمکلام ہوتا ہے تو وہ اپنا دل کھول کر سب کے سامنے رکھ دیتا ہے اور سب سے اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اسے اور اس کی کتاب کو کھلی باہوں سے سیوکار کریں گے۔ اس کی غلطیوں کی تشہیر کے بجاۓ اسے براہ راست بتائیں گے اور اس کی خوبیوں کی دل کھول کر داد دیں گے۔

Check Also

Imf Aur Pakistan, Naya Magar Shanasa Manzar

By Khalid Mehmood Rasool