Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Loh e Ayyam Az Mukhtar Masood

Loh e Ayyam Az Mukhtar Masood

لوح ایام از مختار مسعود

دوستو بہت دنوں کے بعد ایک ایسی کتاب پڑھی ہے۔ جس نے نہ صرف میرے ادبی ذوق کی تسکین کی ہے، بلکہ ماضی قریب و بعید کی تاریخ سے بھی روشناس کروایا ہے۔ انقلاب کیونکر آتے ہیں، کون سے عوامل انقلاب کو دعوت دیتے ہیں، کون کون سے مدارج طے کرنے پڑتے ہیں، عوام و خواص کس چکی میں پستے ہیں، ان تمام مضامین کے اوپر کھل کر روشنی ڈالی۔

یہ پہلی کتاب ہے، جو مختار مسعود کی میری نظر سے گزری ہے۔ میں کچھ دن پہلے چینی انقلاب کے بخیے ادھیڑ رہا تھا تو مجھے شوق پیدا ہوا کہ چین کا انقلاب تو چلو کمیونزم اور سوشلزم کی پیداوار ہے، ادھر ہم جو ہر وقت اسلام کا راگ الاپتے رہتے ہیں کہ اس میں دنیا کے تمام مذموم مقاصد سے لڑنے کی صلاحیت موجود ہے، تو کیا آج تک کسی نے اسلام کے قوانین کو بنیاد بنا کر ظلم کی دیوار گرانے کی کوشش کی؟ کرب و بلا کی مثال تو ٹھیک ہے۔ ہمارے سامنے موجود ہے، مگر اس کو تو چودہ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس کے بعد کسی نے ہمت نہیں کی؟ یہی تمام باتیں سوچتے سوچتے ذہن میں بات آئی کہ ابھی چالیس سال پہلے ایران میں بھی تو انقلاب آیا ہے اور اس کی عمارت بھی اسلامی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ چلو اس کو پڑھتے۔ اسی اثناء میں ایک دوست نے اس کتاب پر تبصرہ شئیر کیا اور اس کی خوب تعریف کی تو میں نے کہا لو جی، مسئلہ ہی حل ہوگیا۔ اسی سے شروع کرتے۔ آئیے اب تھوڑی تفصیل سے اس کتاب پر بات ہو جاۓ۔

مختار مسعود ایک پاکستانی بیوروکریٹ ہیں یا تھے (وہ زندہ ہیں یا وفات پا گۓ کچھ پتہ نہیں)۔ 1977 میں انھیں چار سال کے لیے آر-سی-ڈی (ریجنل کوپریشن فار ڈیویلپمنٹ) کے سربراہ کے طور پر چنا گیا تھا۔ اس تنظیم کے ذمہ خطے کی ترقی و بحالی کا کام تھا۔ جس کا صدر دفتر تہران میں واقعہ تھا اور ایران کے علاوہ پاکستان اور ترکی اس تنظیم کے ممبر تھے۔ آپ جب وہاں پہنچے تو وہاں بادشاہت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی تھی۔ آپ نہ صرف بادشاہت سے بہرہ مند ہوۓ بلکہ بین الاقوامی قوتوں کی دخل اندازی کا بھی آپ نے بھرپور مظاہرہ دیکھا۔ اس کے بعد بدلتے حالات کا بہت قریب سے مطالعہ کیا۔ طاغوتی طاقتیں کس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے ظلم کا ہر حربہ استعمال کرنے کے درپے تھیں، نہتے مسلمان کیسے طاغوتی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوۓ، کیسے ایک باریش درویش نے ملک سے سات سمندر دور رہ کر ان طاقتوں سے مقابلہ کیا، کیسے اس نے مردہ ہوتی قوم میں نئی روح پھونکی، کیسے کچھ ادیب، مفکر اور استاد اسلام کے صحیح معنیٰ اپنی قوم کو بتانے میں کامیاب ہوۓ، اسلام میں بغاوت سے نبرد آزما ہونے کا طریقہ (جو چوتھے خلیفہ مسلمین کے بعد سے دب چکا تھا) قوم کے سامنے رکھا۔ اگر میں اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کروں تو وہ درج ذیل بنیں گے۔

پہلے حصے میں بادشاہوں کی مختصر تاریخ، پاکستان اور ایران کے تعلقات بادشاہت دور میں، ایران کا تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد دنیا کی نظریں ایران کی طرف ہونا، ایران کا علاقائی سیاست میں کردار اس کے بعد سب کا زوال پزیر ہونا۔

دوسرے حصے میں خانہ جنگی کے احوال، امام کی ملک واپسی، خوف اور خون، ساواک کے کارندوں پر فرد جرم عائد، پرانے سیاسی ڈھانچے میں اتھل پتھل، نۓ ڈھانچے کا قیام۔

اور تیسرا حصہ جو کہ میرا پسندیدہ حصہ ہے۔ اس میں تہذیب و تمدن کی تاریخ، اسلامی افکار (کہ جن پر چل کر انقلاب کامیاب ہوا)، ان مفکروں اور دانشوروں سے ملاقات جن کی کاوشیں قوم کو جگانے میں شامل حال رہیں، بیان کی گئیں ہیں۔

Check Also

Nange Paun Aur Shareeat Ka Nifaz

By Kiran Arzoo Nadeem