Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Ali Ahmar/
  4. Khumar Gandum Az Ibne Insha

Khumar Gandum Az Ibne Insha

خمار گندم از ابن انشا

پاکستانی ادب میں جب بھی طنز و مزاح کی بات کی جاتی ہے تو چند نام ہمارے سامنے آتے ہیں، جیسا کہ شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، کرنل اشفاق حسین، کرزا فرحت اللہ بیگ، ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی، پطرس بخاری وغیرہ وغیرہ۔ سب کا لکھنے کا اپنا ایک الگ انداز ہے، مگر ان سب کتابوں میں اگر سرفہرست بات کی جاۓ تو پطرس بخاری کی کتاب "پطرس کے مضامین" آتی ہے۔ آپ اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، نقاد اور معلم تھے اور آپ کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں سکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہیں۔ آپ کے مضامین کو جو شہرت دوام نصیب ہوئی وہ کم ہی کسی ادیب کے حصے میں آتی ہے۔

قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ابن انشا کی کتاب پر بات کرتے کرتے پطرس بخاری کہاں سے بیچ میں آن ٹپکے؟ تو قارئین بات یہ ہے کہ "خمار گندم" پڑھنے کے بعد جو سوچ میرے ذہن میں آئی اس کا آپ لوگوں کے ساتھ تبادلہ کرنے سے پہلے ضروری تھا کہ میں پطرس کے کام کا تعارف آپ سے کروا دوں۔ آیئے اب آتے ہیں اپنے اصل مدعے کی طرف

جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ اردو طنز و مزاح میں جو عزت و شہرت پطرس کی کتاب کو حاصل ہوئی وہ کم ہی کسی مزاح نگار کے حصے میں آئ۔ یوں تو میں قریب قریب پاکستانی تمام مزاح نگاروں کو پڑھ چکا ہوں، مگر کسی مزاح نگار نے مجھے اپنے کام سے پطرس کے کام کا موازنہ کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ مگر خمار گندم کے بعد میں نے سوچا ہر دو کا تقابلی جائزہ نہ کرنا ابن انشا کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ تو آیئے ہر دو کتابوں کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔

ابن انشا کا نام پاکستانی مزاح میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی کتابوں میں تنقید، شاعری، مزاح، سفرنامہ اور مضامین، الغرض اردو ادب کی قریب تمام اصناف ملتی ہیں۔ خمار گندم آپ کے مضامین کی کتاب ہے اور واللہ کیا ہی کتاب ہے۔ اس کتاب نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ بڑی کتاب ہے یا مضامین پطرس؟

آیئے ہم ہر دو کتابوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

پطرس کی کتاب کے پہلے دو مضامین ہی (ہوسٹل میں پڑھنا اور سویرے جو کل آنکھ میری کھلی) اردو مزاح میں بلند مقام کے حامل ہیں۔ ہر دو کے کرداروں، مکالموں اور منظر نگاری میں ایسے ایسے لطیف طنز ہیں۔ جو کھانے میں نمک کی مانند ہیں۔ نظر نہ آتے ہوۓ بھی طبیعت کو ایک سرشاری کی کیفیت سے بھر دیتے ہیں۔ وہیں اگر ہم خمار گندم کے پہلے دو مضامین (استاد مرحوم اور فیض اور میں) کا جائزہ لیں تو یہیں دونوں مضامین میں ٹکر شروع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ہر دو مضامین میں ابن انشا نے جو خاکے کھینچے ہیں، وہ نہ صرف خاکہ کے تمام اوصاف پورے کرتے ہیں، ساتھ ہی ایسے لطیف طنز ان میں بھرے ہوۓ ہیں۔ جو قاری کو ایک سرشاری کی کیفیت میں لے جاتے ہیں۔ ایک اور بات جو ان خاکوں میں خاص ہے وہ یہ ہے کہ مصنف نے استاذان پر چوٹ نہیں کی، بلکہ ان کے ساتھ جو غیر ضروری کردار تھے ان ہر طنز کرکے خاکوں کی خوبصورتی کو دوبالا کر دیا ہے۔ اچھا پھر اگر پطرس کے مضمون "کتے" اور ابن انشا کے مضمون "کتوں کے کاٹنے کے اوقات" کا تنقیدی جائزہ لیا جاۓ تو معلوم پڑے گا کہ ہر دو مصنفین اپنی معراج پر نظر آتے ہیں۔ ابن انشا چونکہ پطرس سے بعد میں آۓ ہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابن انشا نے بہت سی چیزیں پطرس سے مستعار لی ہیں۔ جو آپ کے مضامین میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اسی طرح پطرس کا مضمون "اردو کی آخری کتاب" میں جو مکالمے ہیں، اسی طرز کے مقالمے ہمیں ابن انشا کی کتاب "اردو کی آخری کتاب" میں بارہا دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ان سب کے بعد ابن انشا کے کچھ مضامین ایسے ہیں، جن کو ادب کے اعلیٰ ایوارڈوں سے نوازنا چاہیے جن میں"آج کچھ فلموں کے بارے میں" جس میں مصنف نے فلم انڈسٹری کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ "یونیورسٹی میں شعبہ حماقت" جس میں ہمارے تعلیمی نظام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ پھر "سرکاری یوم اقبال" میں اقبال سے ہماری "محبت" کی داستان، "میلہ مویشیاں میں شاعر کو انعام" میں ہمارے شاعروں کا معیار اور "اک ذرا چاند تک" میں امریکیوں کی چاند یاترا اور ہماری نااہلیوں پر کھل کر چوٹ کی گئی ہے۔

Check Also

Agle Janam Mohe Bitiya Na Keejo

By Amer Abbas