Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Darwaze

Darwaze

دروازے

یہ عرفان جاوید بھی کمال کا بندہ ہے، کتنے ہی وفات پا چکے ادیبوں اور شعراء کو اس نے زندہ کرکے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ بیٹھے بیٹھے بندے کو اپنے قلم کے ذریعے ہفت اقلیم کی سیر کروا دیتا ہے۔ لکھنے کو تو جناب خاکے لکھتے ہیں، مگر ان کو خاکے کہنا عرفان صاحب کے ساتھ زیادتی ہوگی کہ ان کا انداز بیان بہت جامعیت لیے ہوئے ہے۔

ایک طرف تو یہ خاکے ادبی خاکوں کی تمام تعریفوں پر پورے اترتے ہیں، تو دوسری طرف ان میں سفرناموں کے لوازمات بھی موجود ہیں۔ کئی خاکوں کا انداز بیان اتنا خوبصورت ہے کہ جہاں ایک طرف افسانے کا گمان ہوتا ہے، تو دوسری طرف اتنی خوبصورتی سے صاحب خاکہ کو قلمبند کیا ہے۔ جیسے کسی نے آپ بیتی لکھی ہے (آپ بیتی بھی شایداتنی نفاست سے نہیں لکھی جا سکتی)۔ عرفان صاحب نے ایک پوری تہذیب کو ہمارے سامنے زندہ کر دیا ہے۔

یہ تو کتاب کا عمومی تعارف ہوگیا۔ اب میں ان خاکوں کی بات کروں گا، جو مجھے بہت زیادہ پسند آیں۔

اس کتاب میں میرا سب سے پسندیدہ خاکہ "کامریڈ" ٹھہرا جو کہ احمد بشیر کی زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ احمد بشیر اردو ادب کا ایک بہت اہم نام ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہےکہ اسے وہ پذیرائی نہ مل سکی جو اس کا حق تھی۔ دبنگ انداز، حق گوئی و بیباک، لینن کے شیدائی، تقسیم کے سانحہ سے دلگیر، یہ آپ کی کچھ خصوصیات تھی۔ جنہوں نے آپ کی زندگی کو چار چاند لگا دیے تھے۔ موجودہ نسل میں بہت کم لوگ احمد بشیر کے نام سے واقف ہیں۔ اگر ان کا تعارف کروانا ہو تو یہ کہنا پڑتا ہے، (بشریٰ انصاری کے والد)۔ بشریٰ انصاری اور آپ کی بہنوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ احمد بشیر کس قسم کے انسان تھے اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تربیت کن افکار پر کی تھی۔

اس کے بعد شکیل عادل زادہ کا خاکہ بھی مجھے بہت زیادہ پسند آیا۔ جو لوگ پرانا ادب پڑھتے ہیں۔ وہ سب رنگ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لیکن وہ شاید اس بات سے واقف نہ ہوں کہ سب رنگ کی اشاعت دو لاکھ تک لے کر جانے میں شکیل عادل زادہ نے کیسے اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا۔ پھر مشہور فلم سٹار "مینا کماری" سے بچگانہ عشق بھی آپ کی شخصیت کی بہت سی پرتیں کھولتا ہے۔ رئیس امروہی، کمال امروہی، جان ایلیا، ان صاحب اسلوب شعراء اور ادیبوں نے بھی شکیل صاحب کو نکھارنے میں پورا پورا حصہ ڈالا۔

تصدق سہیل کا خاکہ بھی مجھے بہت زیادہ پسند آیا۔ تصدق سہیل جس کو مصنف نے "نانگا پربت" سے تشبیہہ دی، اپنے اندر چٹانوں کی سی ثابت قدمی اور جبروت اپنے اندر سموے ہوے تھا۔ ایک طرف یہ خصوصیات دوسری طرف معصوم دل کہ ایک ہی نگاہ قاتل سے گھائل ہو جائے اور اپنا سب کچھ وار دے۔ یہ خاکہ ادبی لحاظ سے ایک مکمل خاکہ ہے جو کہ خاکے کے تمام لوازمات پورے کرتا ہے۔ اس میں تصدق کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کا بھی کھل کر جائزہ لیا گیا ہے۔ اگر انسان میں خامیاں نہ ہوں تو وہ انسان کاہے کا۔

نصیر کوی، آج سے پہلے شاید کسی نے اس شاعر کا نام بھی نہ سنا ہو کیونکہ میں بھی اس کتاب کے توسط سے آپ سے آشنا ہوا۔ جہلم کے ایک چھوٹے سے علاقے کا ایک بہت بڑا شاعر، جس نے کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزاری اور عسرت میں ہی جان دے دی۔ بھٹو کا شیدائی اور "گھر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے" جیسی شہرہ آفاق نظم کا خالق۔ اس کی اردو اور پنجابی شاعری ماء الذہب سے لکھنے کے قابل ہیں، مگر افسوس، ہم اپنے مشاہیر کی قدر نہیں کرتے۔

اس کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ، عبداللہ حسین اور احمد فراز کے خاکے بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad