Abaad Hue Barbad Hue
آباد ہوۓ برباد ہوۓ
دوستو علی اکبر ناطق کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ نثر نگاری اور شاعری میں تو آپ کا نام سند کی حیثیت رکھتا ہے مگر تنقید پر آپ کی کمال گرفت نے مجھے آپ کا مزید گرویدہ کر دیا۔ آپ کی تنقید پڑھتے وقت مجھے یہ بات بار بار کچوکے لگاتی رہی کہ ناطق کی تنقید کے بارے میں کوئی ادبی پنڈت بات کیوں نہیں کرتا؟ آپ نے اپنی کتاب "شعر اقبال" میں جو جو بحثیں کی ہیں وہ تو بڑے بڑے جغادری اردودانوں سے منسوب ہیں مگر جس زاویہ سے آپ نے اقبال کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اس تک تو اُن کی رسائی بھی نہ ہو سکی۔ خیر ناطق کی تنقید پر پھر کبھی کھل کر بات ہوگئی آئیے ذرا آپ کی خودنوشت اور آپ کے کام کا مختصر تعارف ہو جائے۔
علی اکبر ناطق وہ ہے کہ جب اس کا پہلا ناول منظر عام پر آیا تو لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال گیا۔ یوں تو بہت سے ادیبوں نے اپنی کتابوں میں پنجاب کی لوکیل بیان کی ہے اور ہر کسی نے گوروں کو ظالم اور متشدد ہی دکھایا ہے۔ مگر ناطق نے جب "ولیم" کی کہانی سنانا شروع کی تو بہت سے لوگوں کی سوچ کا زاویہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ گوروں کی آخری نسل (جن کی پیدائش سے لے کر موت تک کا سارا وقت پنجاب میں ہی گزرا اور جنہوں نے اسی مٹی میں ہی دفن ہونے کو ترجیح دی) نے لوگوں کو وطن کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ انسان کا اپنا وطن کون سا ہوتا ہے؟ جہاں وہ پیدا ہوا؟ جہاں وہ ساری زندگی رہا؟ یا جہاں اُس کے دل نے بسرام کیا۔۔
نولکھی کوٹھی کی بے شمار کامیابی نے جہاں بہت سے لوگوں کا ناطق کا گرویدہ بنا دیا وہیں حاسدوں نے بھی اپنے پر پرزے نکال لیے۔ لوگوں نے ناطق پر یہ اعتراض اٹھانا شروع کر دیے کہ پنجاب تو بیشمار لوگوں نے لکھا ہے تو اس میں نیا کیا ہے؟ عصر حاضر کے متعلق کوئی کہانی ہو تو پتہ چلے ناطق کتنے پانی میں ہے۔ اب جب ناطق کا دوسرا ناول "کماری والا" منظر عام پر آیا تو پھر لوگوں نے انگلیاں اپنے دانتوں تلے دبا لیں کہ اس ناول کا زیادہ تر حصہ دور حاضر سے متعلق ہے اور لوکیل بھی دارالحکومت کی بیان کی گئی ہے۔ اگر کہانی کی بات کی جائے تو اس ناول نے ہمارے "ننگے" سماج کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ ہمارے اداروں میں خورد برد، مدرسوں میں ظلم وجبر کی تلقین و تعلیم، ہماری ہائی سوسائٹی کی غلاظت میں لتھڑی سوچ، ہماری اشرافیہ کا گدھوں کی طرح اس ملک کو نوچنا، ہماری شوبز انڈسٹری میں تمام رشتوں کی پامالی، الغرض اس معاشرے کے ہر شعبہ کے چہرے سے نقاب نوچ لیا ہے۔
اس کے بعد ناطق صاحب نے مولانا محمد حسین آزاد کی آپ بیتی "فقیر بستی میں تھا" لکھ کر آپ کو دوبارہ سے زندہ کر دیا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں علی اکبر ناطق نے انتہائی خوبصورت، سادہ اور رواں اُردو زبان میں اٹھارویں صدی کے دہلی، لکھنؤ اور لاہور کی منظر نگاری کی ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اٹھارہویں صدی میں اِن شہروں کے اندر چَل پِھر رہے ہیں اور ان کی ثقافت تہذیب اور کھیل تماشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ناطق نے فقیر بستی میں تھا گویا کتاب نہیں لکھی بلکہ دو سو سال پیچھے جا کر دہلی، لکھنؤ اور لاہور کی تاریخ اور لوگوں کو کیمرے میں محفوظ کیا ہے۔
دوستو آپ لوگ سوچ رہے ہو گے کہ تبصرہ تو یہاں ناطق صاحب کی خودنوشت پر لکھنا ہے تو باقی کتابوں کے بارے بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کی دو بڑی وجوہات ہیں جو میں آپ لوگوں کے روبرو رکھ دیتا ہوں۔ پہلی سب سے بڑی وجہ تو آپ لوگوں سے علی اکبر ناطق کا تعارف کروانا ہے کہ جس سے اردو ادب کی کوئی صنف بھی نہ بچ سکی ہے۔ ناطق جس بھی صنف کو ہاتھ ڈالتا ہے ایسے لگتا ہے کہ یہ صرف یہی صنف لکھنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ کیا ناول کیا افسانے کیا مضامین کیا شاعری کیا تنقید کیا خود نوشت وغیرہ وغیرہ وغیرہ (مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ابھی میں نے صرف تین کتابوں کا تعارف کروایا ہے اور باقی اصناف سے احتراز برتا ہے)۔ دوسری سب سے بڑی وجہ اس تمہید کی یہ ہے کہ اس خودنوشت کو آپ ان تمام کتابوں کا ماخذ کہہ سکتے ہیں۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ ناطق کی تمام تخلیقات کو لنک کر سکیں گے۔ کون کون سے واقعات کیسے کیسے پیش آئے اور ناطق صاحب نے ان کو اپنی کتب میں کس کس طرح برتا۔
آئیے اب ہم وقت مزید وقت ضائع کیے بغیر اس خودنوشت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
جس طرح عمرہ عیار کی زنبیل میں دنیا جہاں کی چیزیں سما جاتی تھی بالکل اسی طرح ناطق کی اس کتاب میں آپ کو اردو کی ہر صنف دیکھنے کو ملے گی کیونکہ یہ ایسے لوگوں سے بھری ہڑی ہے جو نا تو پنج ہزاری تھی، نہ ہی محمد بن قاسم کی فوجوں کے ساتھ آئے تھے، نہ تو خود نواب تھے اور نہ ہی کسی نواب کے وزیر اعظم رہے اور نہ ہی رام پور سے وظیفے کھاتے رہے۔ عام سے لوگ تھے جو لوگوں کے بیچ رہتے تھے اور ان کے ہر دکھ درد میں ان کے کام آتے تھے۔ مذکورہ بالا لوگوں کے بارے تو دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں مگر عام لوگوں کی اتنی پر اثر اور بارونق کہانیاں آپ کو صرف اس کتاب میں ہی ملیں گی۔
اس کتاب کو مصنف نے نو ابواب میں تقسیم کیا ہے اور دل تو چاہتا ہے کہ صفحے کھول کھول کر آپ کو سناؤں مگر طوالت کے پیش نظر اس خیال کو دل میں ہی رہنے دیتا ہوں اور ہر باب کا تھوڑا سا تعارف آپ سے کروا دیتا ہوں۔۔
شروع کے ابواب مصنف کے آباؤ اجداد کے تعارف اور اس کے بچپنے کے دنوں سے پر ہیں۔ اس کا ایک مضمون "الہ دین کی چارپائی" کے نام سے مصنف نے باندھا ہے اور کیا ہی عمدہ باندھا ہے۔ مطلب ایک چارپائی کے گرد مصنف نے کرداروں کی مدد سے پوری تہذیب ہمارے سامنے رکھ دی۔ ہر کردار اتنا نوکیلا اور چھبتا ہوا کہ بات بات پر آپ کو ہنسی کے ٹھوکے لگاتے جائیں۔ وہ باتیں کیا کرتے تھے ایک آدھی آپ بھی سن لیں۔
"بھلا اجاڑے سے پہلے کسی کو پتہ تھا یوں دیس دیس مارے پھریں گے؟ فیروزپور میں چوری چکاری کا چنگا بھلا کاروبار تھا اور عزت کی روٹی کھاتے تھے۔ بس الہ دین ساری عزت اور محنت کی کمائی اجاڑے نے کھا لی"۔
پھر نواب صاحب کے ہاتھی چوری کا قصہ کہ کیسے اس وقت کے ایک گبھرو جوان نے ہاتھی کو اٹھا کر دیوار پر سے پرے دے مارا۔ اور سارا گاؤں اس کی اس ہمت پر عش عش کر اٹھا۔
پھر اس وقت کے مجموعی حالات کہ اجاڑے کے بعد ان لوگوں کی بسر اوقات کس طرح ہوتی تھی، سب کو صرف ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی اور جن کے گھر دو وقت کھانا بنتا تھا ان کو نواب تصور کیا جاتا تھا، مسلمانوں کی ازلی جہالت ہر جگہ کی طرح یہاں بھی ان کے آڑے آتی رہی کہ ہندوؤں اور چوہڑوں کے بچے تو اس وقت سکول جاتے تھے مگر مسلمانوں کے بچے نہ جاتے تھے کہ مبادا ان کو "کرسٹان" بنا لیا جائے گا۔ مولویوں نے اپنے پاپی پیٹ کی خاطر وہ وہ کام کیے کہ مسلمان دین و دنیا میں اتنے پیچھے رہ گئے کہ مہذب دنیا میں ان کا کوئی نام و نشان ہی نہیں۔ اس کے بعد ناطق کا اسکول میں داخلہ، سچ پوچھو تو یہ دو تین ابواب جن میں مصنف نے اپنا بچپنا گزارا اور ابتدائی تعلیم حاصل کیں وہ میرے سب سے پسندیدہ باب ہیں۔
کیسے صبح سے شام تک ڈھور ڈنگروں میں مگن رہنا، کبھی گنے کے کھیتوں میں نقب لگانی تو کبھی جامن کے بلند و بالا درختوں سے مرغیاں اتارنی، کبھی کاپی سے ہد ہد کا شکار کرنا تو کبھی جنوں کا آپ کی لکڑیاں لے کر فرار ہو جانا، کبھی لسوڑے کے درخت پر گلہری کی طرح ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتے رہنا تو کبھی باجرے کے کھیتوں میں گھس کر پرندوں کے موافق چگتے رہنا، کبھی الف ننگے ہو کر بارات نکالنا تو کبھی باندر کلہ، لکڑ چٹالا، گلی ڈنڈا کھیلتے رہنا، کبھی بھڑوں کی دم سے دھاگہ باندھ کر انہیں اڑانا تو کبھی کسی خمدار لکڑی کو کھونڈی کی شکل دے کر اس سے ہاکی کھیلتے رہنا۔ اور ان سب کے بیچ اسکول کا چکر بھی لگا آنا۔
اس کے بعد کے ابواب مصنف کے گھریلو اور معاشی حالات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کیسے آپ کے والد صاحب عازم عراق و نجف ہوئے، وہاں کام کرتے رہے اور واپسی پر سارا سرمایہ اپنے بھولپن اور صاف دلی کی بدولت گنوا دیا۔ ساتھ ساتھ مصنف پرائمری سے مڈل سکول میں پہنچ گیا ہے اور بچگانہ شرارتوں میں ہلکے ہلکے جرائم شامل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس ضمن میں دو واقعات میں ضرور سنانا چاہوں گا۔
پہلا واقعہ تو بابا مھندہ اور دو سانپوں بنام نیل بانیا اور کلساڑ سے متعلق ہے۔ بابا مھندہ ان کے گاؤں کا ایک جانا مانا جوگی تھا جو کے 125 سال کی عمر میں فوت ہوا۔ نیل بانیا (جسے سانپوں کا وزیر کہا جاتا ہے) والا واقعہ تو بابا مھندہ کے والد کے ساتھ پیش آیا جب بابا مھندہ ابھی جوان ہی تھا اور اپنے بابا کے ساتھ سانپوں کی تلاش کو نکلتا تھا۔ کیسے دنیا کے قریباً سب سے زہریلے سانپ سے ان لوگوں کا سامنا ہوا اور بابا مھندہ کے والد نے اسے رام کیا، وہ سب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
دوسرا واقعہ بابا مھندہ اور ناطق صاحب کے ساتھ خود پیش آیا جسے ناطق صاحب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بیان کیا۔ اس میں نیل بانیا کی جگہ کلساڑ سانپ تھا (جسے سانپوں کا بادشاہ کہتے ہین) اور بابا مھندہ نے اسے اپنی جنتر منتر سے رام کیا۔ آج کے دور میں اگر یہ سب باتیں کسی سے بیان کی جائیں تو یقین نہیں آتا کہ کوئی جانور صرف آپ کی زبان کی مدد سے آپ کے قابو میں آ سکتا ہے۔
دوسرا واقعہ ناطق صاحب کا احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات کا ہے۔ جو لوگ ناطق کی شاعری کے دیوانے ہیں ان کو یہ کہانی نہ صرف مزہ دے گی بلکہ اس کی شاعری کی گہرائی کو سمجھنے میں مدد بھی دے گی۔ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے ناطق میر و غالب، سودا و درد کا نہ صرف سارا کلام پڑھ چکا تھا بلکہ خود بھی شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔ اور نہ صرف شعر کہنا شروع کر دیے تھے بلکہ تین چار سو صفحات کا ایک دیوان بھی کھڑا کر لیا تھا۔ اب جب اتنی غزلیں لکھ لیں تو سوچا ان کو چھپوا لینا چاہیے اور نظر انتخاب پڑی فیروز سنز پر کیونکہ اس وقت وہ پبلشنگ کا سب سے بڑا ادارہ تھا۔ اب جب وہاں پہنچ کر اپنا مدعا بیان کیا تو ادارے والے سوچ میں پڑھ گئے کہ اس لڑکے کا کیا جائے؟ انھوں نے ناطق صاحب کو ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ احمد ندیم قاسمی سے ملیے اور ان سے اپنے کلام کے متعلق بات چیت کر لیجیے۔ اب جب ناطق احمد ندیم قاسمی سے ملنے ریڈیو پاکستان پہنچا تو وہاں ریڈیو ٹرانسمیشن چل رہی تھی جس میں قاسمی صاحب اپنی غزل سنا رہے تھے۔ جس کا ایک شعر درج ذیل ہے
خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں
وہ دن جو ہم نے ترے ہجر میں گزارے
لیں جناب یہ غزل سننے کے بعد ناطق نے فیصلہ دیا کہ "اس سے کئی درجہ بہتر شاعر تو میں خود ہوں۔ ایسے ہی اتنا وقت ضائع کیا اور وہاں سے نکل آئے۔
کتاب کے آخری ابواب میں جہاں ہمیں مصنف کا لڑکپن اور جوانی پڑھنے کو ملتی ہے وہیں اس وقت کے کالجوں کی حالت بھی مصنف نے ہمارے گوش گزار کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں سے بھی متعارف کروایا ہے جن کی ادبی محافل میں بیٹھ کر آپ کا شعر و شاعری کا شوق پروان چڑھا (آپ کے ادبی رفقا اور رقیبوں کی مفصل داستان تو خودنوشت کے دوسرے حصے میں پڑھنے کو ملے گی مگر اوکاڑہ کے شاعروں کے احوال اس کتاب میں مفصل بیان ہوئے ہیں)۔
اس کے بعد جب مصنف کی نوکری دودھ کلیکٹر کے طور پر ہو جاتی ہے اور اسے بارڈر کے علاقوں سے دودھ کی سپلائی پوری کرنی ہوتی ہے، تو وہاں کے چوہدریوں اور ملکوں کے کرتوت بھی مصنف ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ بارڈر ایریاز پر فوج اور پولیس کس طرح شریف لوگوں کو ایکسپلائٹ کرتی ہے، اس پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے اور سب سے آخر میں، مصنف نے اپنے مشہور و معروف ناول "نولکھی کوٹھی" کا من موہ لینے والا لینڈ اسکیپ کہاں سے اور کس طرح اٹھایا ہے، وہ آپ کو صرف اور صرف اس کتاب کے ذریعے ہی پتہ چل سکتا ہے۔۔