Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Zehni Ghulam, Dolay Shah Ke Choohe Aur Likhari

Zehni Ghulam, Dolay Shah Ke Choohe Aur Likhari

ذہنی غلام، ڈولے شاہ کے چوہے اور لکھاری

ہمارے زمانہ طالبعلمی میں ہمارے اکثر دوست مختلف جماعتوں سے ہوتے تھے اور بحث مباحثہ بھی ہوتا تھا لیکن آج کل کی طرح ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ ہم ایک دوسرے کے رہنما کو برابھلا کہتے لیکن کبھی آپس میں ایک دوسرے کو برابھلا کہنے کے ساتھ ساتھ ماں بہن کی گالیاں نکالنی شروع نہیں کردیتے تھے۔

اب آپ کسی شخص یا قریبی دوست کے رہنما پر تنقید تو کرکے دکھائیں جواباً آپ کو عظیم القابات سے نوازنے کے ساتھ ساتھ کم عقل اور جاہل بھی کہا جائے گا۔ وہ شخص اپنے رہنما کے ہر برے کام کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ مخالف رہنما کے اچھے کام میں بھی کیڑے نکالنا اپنا فرض سمجھے گا۔ غرضیکہ اپنے رہنما کے ہوا خارج کرنے کو بھی عطر قرار دے گا اور مخالف رہنما کے عطر کو بھی بدبو قرار دے دے گا۔

یہ لوگ پکے ذہنی غلام اور ڈولے شاہ کے چوہے ہیں۔ ان کو لاکھ سمجھائیں کہ یہ خودساختہ رہنما آپ کو کچھ نہیں دیں گے اس لیے آپس میں تعلقات اچھے رکھیں یا پھر کم از کم سیاسی اور مذہبی گفتگو سے پرہیز کریں۔ لیکن صد حیف کہ وہ اپنے آپ کو ارسطو سمجھتے ہوئے لازمی انتہائی فضول اور گھٹیا قسم کی گفتگو کی شروعات کردیں گے اور مخالفت کرنے پر دلیل دینے کے بجائے آپ کو ہی برابھلا کہیں گے۔ بھائی یہ ضروری نہیں کہ آپ کا ہیرو دوسروں کا بھی ہیرو ہو یا پھر ہوسکتا ہے آپ کا ولن کسی دوسرے کا ہیرو ہو تو کوشش کریں کہ آپ ایسی گفتگو نہ ہی کریں۔

آپ معاشی، اخلاقی یا معاشرتی حالات پر نہ ہی گفتگو اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں کیونکہ آپ کو مخالف گروہ کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ اس تنقید کو اپنے رہنما پر لے سکتے ہیں۔ یہ رہنما کوئی سیاسی، مذہبی یا دانشور بھی ہوسکتا ہے۔

میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں انتہائی بزدل اور ڈرپوک لکھاری ہوں۔ میں کسی بھی ظلم و زیادتی پر چپ رہتا ہوں۔ میں دل ہی دل میں کڑھتا ہوں لیکن اس کو تحریر کی شکل نہیں دے سکتا کہ پتا نہیں میرے کسی چاہنے والے کو برا نہ لگا جائے۔۔ میں نے طنز و مزاح کی آڑ میں نہایت ڈھکے چھپے الفاظ میں بھی اگر لکھا تو مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں کبھی بحث مباحثے پر نہیں اترتا کیونکہ ہم ایک بدترین دور سے گزر ہے ہیں جس میں اگر آپ نے کسی کے خودساختہ بھگوان کو برا کہہ دیا تو ہوسکتا ہے اس کے پجاری آخری حد تک چلے جائیں۔۔

مجھے نہیں پتا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے لیکن میں ان سب صحافیوں اور لکھاریوں کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں جو غیر جانبدار رہتے ہوئے ظلم اور زیادتی کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ ان صحافی اور لکھاریوں کو جن جن القابات سے نوازا جاتا ہے میں ان القابات کو بھی نہیں لکھ سکتا کہ پھر مجھے اس جنونی گروہ نے کہنا ہے تم ان لوگوں کا ساتھ دے رہے ہو۔

کیا ایک لکھاری کو موجودہ حالات کو یکسر نظرانداز کرکے صرف اور صرف مخصوص ادب ہی پر لکھنا چاہیے کہ یا پھر سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں اتر جانا چاہیے؟ کیا کہتے ہیں آپ؟

جہاں تک میں ہوں تو میرا اعترافی بیان آپ کے سامنے ہے کہ میں اپنے مداحوں کو کھونا نہیں چاہتا ہوں اس لیے سیاست پر لکھنے سےگریز کرتا ہوں لیکن اپنے وطن سے محبت کرتا ہوں اور اس کے خلاف بولنے والے سے نفرت کرتا ہوں، بے شک وہ کوئی بھی ہو۔ مجھے اس مہینے لکھتے ہوئے پورا ایک سال ہوگیا ہے اور کئی سانحات میرے سامنے ہوئے لیکن میں آنکھیں بند کرکے گزر گیا اور آج بھی میری آنکھیں بند ہیں۔

Check Also

Baap Ya Psychiatrist

By Shahzad Malik