Wada
وعدہ
وعدہ تلو آج تے بعد میلا بے بی تھانا دلول تھائے دا۔۔
میں جو رات کو اپنے چوبارے کی تیسری منزل پر سکون سے بیٹھ کر دھواں نکالنے کا ارادہ کرکے چڑھا تھا فوراً سے پیشتر اپنے کانوں میں چیچی انگلی گھما کر ساتھ والوں کی دیوار سے چپک گیا جہاں میرا ہمسایہ اپنے جانو پر پدرانہ شفقت جھاڑ رہا تھا۔۔
رات کے سناٹے میں دوسری طرف سے آنے والی آواز بھی میرے بایونک کانوں تک پہنچ رہی تھی جو اس وقت اوماہ اوماہ کرکے پوری طرح ممتا نچھاور کررہی تھی۔۔
وعدے وعید اس طرح ہورہے تھے جیسے محبوب صاحب کالے پانی جارہے ہوں۔ اپنی تنہائی کے رونے روئے جارہے تھے حالانکہ کہ محبوب صاحب اپنے چاربچوں اور ان کی اماں کے علاوہ اپنی اماں اور پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ان کی تنہائی کا سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکلنے ہی لگے تھے کہ اچانک ان کی باتوں کا رخ تبدیل ہوگیا اور گفتگو آہوں سسکیوں سے بھر گئی۔ مجھے لگنے لگا کہ شائید دونوں موبائیل کے اندر گھس کردنیا و مافیہا سے بے خبر ہوچکے تھے۔۔
سردی کے باوجود میرے کان گرم اور مساموں سے پسینہ خارج ہونے لگا یہاں تک کہ مجھے لگنے لگا کہ اگر میں نے دخل نہ دیاتو شائید ان میں سے کسی ایک کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی یا پھر میرا دل باہر آجائے گا۔
بس یہی سوچ کر میں اچک کر دیوار پر بیٹھا تو میرے قدموں تلے زمین نکل گئی کہ شائید دیر ہوگئی ہے اور محبوب صاحب کی جان نکلی ہی جاتی ہے کیونکہ وہ ٹھنڈے فرش پر لیٹے آنکھیں بند کیے اول فول بکتے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے اور لگ رہا تھا کہ موبائیل سے نکلنے والی غیرمرئی شعاعوں نے ان کا یہ حال کردیا ہے کیونکہ موبائیل ان کے کان کے ساتھ بری طرح چپکا ہوا تھا۔
میں نے فوراً سے پیشتر ان کے چھت پر چھلانگ لگا کر ایک ہاتھ سے موبائیل چھین کر دوسرے ہاتھ سے اپنےآزمودہ طریقہ کار کو آزماتے ہوئے ان کی قلم (کان کے نزدیکی بال)کو پکڑ کر کھینچا تو ان کی آوازیں چیخ میں بدل گئی اور وہ اپنی خیالی دنیا سے واپس حقیقی دنیا میں آگئے۔۔ مجھ پر نگاہ پڑتے ہی ایسی حالت ہوگئی کہ جیسے انہوں نے مجھے نہیں کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو۔۔
"کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ جان۔۔ " دوسری طرف سے مسلسل آواز آرہی رہی تھی۔
"آپ کے محبوب کی جان نکل چکی ہے۔۔ " میں نے محبوب صاحب کے ہاتھ سے موبائل پکڑتے ہوئے جواب دیا۔
"ہائے اللہ! " کہہ کر فوراً فون بند کردیا گیا اور میں نے فوراً سے پیشتر اپنی عقابی نگاہوں اور دماغ سے نام اور فون نمبر ازبر کیا۔۔
"اٹھ جائیں جناب کاما سوترا کے ہیرو صاحب" میں نے محبوب صاحب کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے آواز لگائی۔
"کیابدتمیزی ہے! " انہوں نے ہوش میں آتے ہوئے مجھ سے فون چھینتے ہوئے کہا۔
"دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں جناب اور آپ کی انتہائی نامعقول گفتگو میرے کانوں نے سن کر دماغ میں قید کرلی ہے اور اب بھابھی کو بتایا جائے گا کہ آپ کے شوہر نامدار کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔۔ غضب خدا کا آپ کی رن مریدی اور شرافت نے ہم جیسے نامعقول لوگوں کا جینا محال کیا ہوا تھا۔۔ " میں نے ایک سانس میں اپنا کئی سالوں کا غصہ نکالا۔
"کک کک کیا ثبوت ہے؟" انہوں نے رعب جمانے کی کوشش کی۔۔
"زیرو تین سو چوہتر نناوے۔۔ " میں نے فون نمبر اور نام دہرایا جو مشہور و معروف "ثنااللہ صاحب" کے نام سے محفوظ تھا۔۔
اب محبوب صاحب کی ہوا نکل گئی اور انہوں نے منت سماجت کرکے مجھ سے "وعدہ" لیا کہ یہ خبر گھر میں یا گلی کسی کو نہ پتا چلے۔۔ باقی آپ سب جانتے کہ میں"وعدہ" ضرور پورا کرتا ہوں۔۔ ویسے اس کے بعد جو ان کے ساتھ ہوا وہ کہانی پر سہی۔۔
لیکن ایک بات ہے کہ یہ جو آج کل وعدے ہورہے ہیں ان کا اپنا ہی لیول ہے اور سمجھ سے باہر ہے کہ جانو "بچہ" بلتے "توتلا بےبی" تیوں بن داتا ہے؟
ذرا ماہر لوگ اس پر دو روشنیوں والے موبائیل سے روشنی ڈالیں۔۔