Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Ustad Grenade

Ustad Grenade

استاد گرنیڈ

تمام نفیس طبع، مہذب اور زبردستی کے معزز لوگ اس پوسٹ یا قصے کو ادھرتک پڑھ کر ادھورا چھوڑ دیں۔ یقین کریں اس قصے سے کسی کو کوئی سبق نہیں ملنے والا اسلئے وہ تمام لوگ جو بچپن میں پوری کہانی کے بجائے صرف "مارل" (سبق /نتیجہ) یاد کرتے تھے وہ خود ساختہ افلاطون تو بالکل بھی اس قصے کو نہ پڑھیں۔

اب ان تمام ہدایات کے باوجود بھی تھوڑا یا پورا قصہ پڑھ کر برابھلا کہنے والا ان پڑھ اور پڑھا لکھا زاہل (جاہل) ہوگا۔

ہمارے طالبعلمی کے دنوں میں سردیوں میں بکثرت مولی اور گونگلو (شلجم) دستیاب ہوتے تھے جس کی وجہ سے ہمارا کلاس روم گیس چییمبر بنا ہوتا تھا۔

ہمارے ماسٹر جی جیسے ہی کمرے میں قدم رکھتے تو فوراً ناک پر صافہ (بڑا رومال) رکھ لیتے اور نعرہ لگاتے "گرنی۔۔ ڈ"۔۔

"جی ماسٹر جی! " کونے سے آواز آتی۔

"چل شلوار جھاڑ کر آ" ماسٹرجی کا حکم صادر ہوتا اور گرنیڈ سعادت مندی سے اُٹھ کر، برآمدے میں جاکر شلوار جھاڑ کر دوبارہ اندر آجاتا۔

گرنیڈ کا نام تو اچھا بھلا انور تھا لیکن اس کی دھماکہ خیز خصوصیت کی بنا پر ماسٹر جی نے گرنیڈ رکھ دیا تھا جو کہ آنے والے وقتوں میں ایک واقعہ کے بعد "استاد گرنیڈ" پڑ گیا۔

"یار! میری آڑ میں واردات تم سب ڈالتے ہو لیکن بدنام صرف میں ہوں" گرنیڈ اکثر شکوہ کرتا۔

اور ہم من آنم کہ من دانم کے مصداق اس پر ایمان بھی لے آتے۔

بقول ہمارے انگریزی کے استاد کے اس کمرے میں"کاک ٹیل" کثیر مقدار میں ہے اور ہم بہت ہنستے کہ "مرغ کی دم" کہہ رہے ہیں وہ تو اب آکر پتا چلا کہ مختلف "خوشبوؤں کی آمیزش" کی وجہ سے وہ کہتے تھے۔

ہمارا ہفتے والے دن، آخری پیرئیڈ ڈرل کا ہوتا تھا جو بالعموم خالی ہوتا تھا اور آخری پانچ منٹوں میں کل کی چھٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے "فائرنگ" کا مقابلہ ہوتا تھا۔

ایک ایسے ہی دن لطیف "بھمبیری" نے شروعات کی اور "پ۔۔ ڑ پ۔۔ ڑ پ۔۔ ڑ " موٹر سائیکل کے پھٹے سائلنسر والی آواز نکالی۔

"پ۔۔ اں" لگتا ہے شیدا "تِلی" ہارن پر ہاتھ رکھ کر بھول گیا۔

"پ۔۔ وں" اکرم "پوجی" نے دھن چھیڑی۔۔

"پ۔۔ ی پ۔۔ ی" لگتا ہے حمید "سنڈی" بیمار ہے۔

"پٹ پٹ پٹ" یہ سعید "کپی" کا پیٹر انجن تھا۔

چاروں طرف سے "پ۔۔ وں پ۔۔ اں پ۔۔ یں کی دھنیں تھیں۔۔

اچانک مجھے پیچھے سے آواز آئی "پڑ پڑ پڑاک"۔۔ "او بیڑا غرق ببلی! " میرے منہ سے نکلا۔ ببلی میرا ہمسایہ اور دوست تھا جو میرے پیچھے بیٹھتا تھا۔

"یار غلطی ہوگئی! " ببلی نے سرگوشی کی۔

"چل جا دھو کر آ" میں نے غصے سے کہا۔

"لیٹرین میں جن ہیں۔ میں نہیں جاؤں گا" ببلی صاحب اڑ گئے۔

اتنے میں چھٹی کی "ٹلی" (گھنٹی) کھڑک گئی اور ہم اٹھ کر باہر کی طرف لپکے۔

راستے میں گھر جاتے ہوئے ببلی نے مرونڈے والے سے مرونڈا خریدا اور مجھے دعوتِ عام کی پیش کش کی جو میں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر رد کردی۔

اب ببلی صاحب ہاتھ میں مرونڈا پکڑ کر ٹانگیں چوڑی کرکے چل رہے تھےجیسے ختنہ کروا رکھی ہو اور اسکے آگے پیچھے مکھیاں بھنبھناتی اڑ رہی تھیں۔

اچانک ہمارے مولوی صاحب جو سائیکل پر جارہے تھے انکی نگاہ مرونڈے اور ببلی پر پڑی تو انہوں نے پوچھا "ببلی کیوں ایسے چل رہا ہے؟"

"جی لیک ہوگئی" میں نے جواب دیا۔

"نہیں مولوی صاحب چوٹ لگ گئی ہے" اور ساتھ ہی مولوی صاحب کو مرونڈے کی آفر کردی جو مولوی صاحب نے بخوشی قبول کی اور سائیکل کے پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کیا کہ گھر چھوڑ دیتا ہوں۔

ببلی پچھلے کیرئیر پر بیٹھ کر مکھیوں کا ہجوم اپنے ساتھ لے گیا اور میں نے شکر کیا۔

رات کو ہماری فٹبال ٹیم کے جماندرو کپتان مجید "کھمبی" اور انور "گرنیڈ" نے دروازہ کھٹکھایا۔

میں دروازے پر آیا تو مجید بولا۔ "تیاری پکڑلے! کل ہم دلدار والا فٹبال میچ کھیلنے جارہے ہیں۔ "

"اوہ بھائی! کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں کیوں موٹرسائیکلیں ضبط کروانی ہیں اور پٹرول کے پیسے تو ہی دے گا" میں پھٹ سے بولا۔

مجید "کھمبی" ہمارا جماندرو یعنی مستقل کپتان تھا۔ کرکٹ ہو یا فٹبال، اسکے ذمے انٹری فیس اور لڑکوں کو جمع کرکے لے جانے کا کام ہوتا تھا۔ اسلیے یہی کپتان ہوتا تھا۔

"بھائی! ویگن جارہی ہے" گرنیڈ بولا۔

"ویسے پیسے کبھی پہلے ہم نے دیے ہیں جو اس دفعہ دیں گے" گرنیڈ فخریہ انداز میں بولا۔

"اُدھر گاؤں میں دوسرے کلب والے پچھلے مہینے گئے تھے تو انہوں نے بھنے خرگوش کھلائے تھے۔ بہت مہمان نواز ہیں" گرنیڈ خوشی سے ایک سانس میں بولا۔

"حوصلہ کر کبھی گیس لیک نہ ہوجائے خوشی میں! " میں نے انتباہ (وارننگ) کیا۔

چلو ٹھیک ہے صبح ملاقات ہوگی۔

صبح گیارہ بجے ہم سب تیار ہوکر ویگن میں بیٹھ کر چل پڑے اور گرنیڈ کو سب سے پیچھے عاطف "ٹینڈی" کے ساتھ بٹھایا۔ عاطف "ٹینڈی" کی خوشبو / بدبو والی حس ہی خراب تھی اوراس کو کبھی خوشبو یا بدبو نہیں آتی تھی۔

ادھر پہنچ کر ہم نے میچ کھیلا لیکن مقررہ وقت تک میچ برابر رہا تو انہوں نے کہا آدھ گھنٹہ اور۔۔ لیکن اس دوران بھی ایک ایک گول ہوا۔

اب ہم نے کہا ہماری بس ہوگئی ہے۔۔

اس "بس" کا مظاہرہ ہمارے گرنیڈ نے بیٹھتے ہوئے باآواز بلند طریقے سے "دھماکا" کرکے کیا۔

ہم تو عادی تھے اس چیز کے لیکن وہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔

انہوں نے کہا کھانے کو تھوڑی دیر ہے آپ لوگ جتنا یہ تازہ گنے، شلجم، مولی اور گاجریں کھائیں۔

الحمداللہ ہماری فٹبال ٹیم یاجوج ماجوج کی طرح ایک بارات کا کھانا باآسانی کھا سکتی ہے اور انہوں نے اسکا عملی مظاہرہ بھی کردکھایا اور کچھ دیر میں ادھر چھلکوں کے سوا کچھ نہ تھا۔

اللہ اللہ کرکے کھانا آیا جس پر ہم سب اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے چنگیز خان کسی ملک پر حملہ کرتا تھا۔ ہمارے اور اسکے درمیان فرق یہ تھا کہ وہ کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا اور ہم ہڈیوں کے۔

اس دن بلا مبالغہ ہم نے کوئی پچیس تیس خرگوش کھانے کے علاوہ گائے کےقورمے کے ساتھ لاتعداد روٹیوں بھی اڑائیں لیکن مجال ہے جو گاؤں والوں کے چہروں پر ناگواری آئی ہو۔

کھانے کے چکر میں پتا ہی نہ چلا کہ کب شام کے سائے لمبے ہوگئے۔

"چلو بھائیوں! " ویگن والے کی آواز آئی۔۔

"ہاں یار! ادھر ڈاکو بھی ہوتے ہیں" پپو کو آواز آئی جو ویسے بھی پپو تھا۔

خیر کھانا پِیڑ "کھا" کر ہم ویگن میں سوار ہوکر چل پڑے لیکن کچھ دوری پر آواز آئی۔۔

"روکنا ذرا! " یہ ہمارا جماندرو کپتان تھا جو اپنے معدے میں کھانا پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں رکھ سکتا تھا۔

ویگن رکوائی اور مجید جھاڑیوں میں گھس گیا۔ ہلکی پھلکی بمباری کے بعد واپس آیا تو اتنی دیر میں آدھی ٹیم بشمول ڈرائیور کے ویگن کے پہیوں اور کھیتوں کو پانی دینے میں مصروف تھی۔

خیر دوبارہ بیٹھے تو مولی شلجم کے ڈیڈلی کمبینیشن (مہلک ملاپ) نے اثرات دکھانے شروع کیے اور سردی میں ہمیں ویگن کے شیشے کھولنے پڑے۔

ویگن والا تو شائد ہلکی پھلکی کاروائی کا عادی ہو لیکن اتنی تباہ کاریوں کا عادی نہیں تھا اسلئے ناک پر مفلررکھے صلواتیں سناتا ویگن چلاتا رہا۔

"روکو روکو! " مجید نے شور مچایا

"استاد! جانے دے" میں نے نعرہ مارا

ڈرائیور بھی گاڑی روکنے کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ کچے کا علاقہ تھا۔

"میں سیٹ پر کردوں گا! " کھمبی نے متنبہ کیا (وارننگ دی) اور پیٹ پکڑ لیا۔

ڈرائیور نے یہ سنتے ہی بریک لگائی اور مجید کھمبی کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم بھی گنے کی فصل کو کھاد دینے اتر گئی۔

اچانک "خبردار، ہوشیار، کھڑ ونجو" کے مختلف نعروں کے ساتھ ہماری ویگن کو چند لوگوں نے ہاتھوں میں بندوقیں لئے گھیر لیا۔

وہی ہوا جسکا ڈر تھا ہمیں ڈاکو پڑ گئے تھے۔ لیکن میں اور میرے زیادہ تر ساتھی مطمئن تھے کیونکہ ہم بالکل خالی ہاتھ تھے لیکن خوف زدہ صرف تین بندے تھے۔ ایک ڈرائیور جسکی گاڑی تھی، دوسرا کھمبی جسکی شلوار والی جیب میں پیسے تھے اور تیسرا پپو جو پپو ہونے کی بنا پر ڈر رہا تھا اور اسکا ڈر "جائز" بھی تھا۔

ڈاکوؤں نے کافی دبکے لگانے کے بعد باری باری سب کی تلاشی لی اور پیسے نہ نکلنے پر سیخ پا ہوتے رہے۔

اب گرنیڈ کی باری آئی تو وہ لوگ تلاشی لے لے کر تنگ آچکے تھے۔

"کڈ گھن جیہڑا کج تیڈے کول ہے" یعنی "نکال دے! جو کچھ تیرے پاس ہے" ایک ڈاکو نے گرنیڈ کے پیٹ کی طرف دستہ مارنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"پ۔۔ وں" گرنیڈ جو اتنی دیر سے رکا ہوا تھا اچانک پھٹ پڑا۔

"لے بھائی! جو کچھ گیلے تھا کاڈ دیا" (جو کچھ اسکے پاس تھا وہ نکال دیا) صابر "جگتی" نے انتہائی معصومیت سے جواب دیا۔

اسکی بے ساختہ جواب پر خوف کے باوجود ہمارا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔

"کیا مطبل! " ڈاکوؤں کا سرغنہ بولا

"سائیں! جیہڑا کج ہوندے نال ہائی او کڈ دِتا" اب کے غلام محمد "گامے" نے ترجمہ کیا۔۔

اسی اثنا میں ایک اور "پ۔۔ اں" کی آواز پر سرغنہ بولا "میڈا بھرا ترپے لوا گھن" (میرے بھائی سلائی کروا)۔

اسکے ساتھ ہمیں کہا دفع ہوجاؤ اور اپنے ساتھیوں کو واپسی کا اشارہ کرتے گنے کے کھیتوں میں گھس گیا۔

"استاد گرنیڈ آگے آجا" ڈرائیور نے گرنیڈ کو بڑی عزت سے آگے بلایا اور پورا رستے "موسیقی" سے لطف اندوز ہوتا آیا۔ تب سے اب تک گرنیڈ ہمارے لئے "استاد گرنیڈ" ہے

کُھمبی نے راستے میں ایک دو دفعہ چیچی انگلی کھڑی کی لیکن ہم لوگوں نے کوئی خطرہ مول نہ لیا اور اپنے شہر پہنچ کر دم لیا۔

نتیجہ (Moral): سفر میں چلنے سے پہلے زیادہ کھانا نہ کھائیں۔

Check Also

Imran Khan Ki Rihai Deal Ya Dheel

By Sharif Chitrali