Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Shumali Ilaqa Jaat Ki Sair (5)

Shumali Ilaqa Jaat Ki Sair (5)

شمالی علاقہ جات کی سیر (5)

آج صبح سیف کی نیند پوری تھی۔ میں فجر کی نماز کے بعد سونے لگا تو آنکھوں میں چبھن سےہونے لگی اور آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ اٹھ کر دیکھا تو سیف صاحب پیاز چھیل رہا تھے۔ مجھے اٹھتے دیکھ کر کہنے لگا آج سب کو جلد ناشتہ کرواکر دم لوں گا۔ میں نےہاتھ جوڑ کر اس کو کہا کہ بھائی میرا دم نہ نکال اور اس کے ساتھ سارا کھانا بنانے کا سامان ہوٹل کی چھت پر پہنچوایا اور کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھا اسے کھانے بنواتے دیکھتا رہا لیکن بھائی صاحب ہر تھوڑی دیر کے بعد حکم صادر فرمادیتے کہ چمٹا لادے، تیل لادے، پانی ختم ہوگیا۔۔ میں نے کہا "بھائی صاحب میں سونے جارہا ہوں" اور نیچے کمرے میں آکر سوگیا۔ ویسے اس ٹور میں جتنی خدمات سیف کی تھیں ہم اس کا عشر عشیر نہیں کرسکتے۔

کچھ دیر میں سیف کی چیخ و پکار سے آواز کھل گئی۔ معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ رات کو روٹیاں لاتے ہوئے اس نے ایک تندور والے سے رضامندی لی تھی وہ ہمارے آٹے کی روٹی بنادے گا لیکن جب میں صبح آٹا گوندھ کر اس کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ وہ ایک روٹی لگانے کے پچاس روپے لے گا۔ غضب خدا کا رات ہم تیس کی روٹی لائے تھے جو ہمارا اپنا آٹا ہونے پر پچاس کی لگے گی۔ چیخ پکار پر تندور والا بولا کہ گیس مہنگی ہے اس لیے پچاس روپے ہیں۔ ویسے کمال ہے کہ ہمارے آٹے کی روٹی زیادہ گیس کھاتی ہے۔

سیف واپس آیا اور اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر ہمیں کھلائے۔ واپسی پر میں نے باقی آٹا چپ کرکے نیچے ہوٹل والے کے کچن میں موجود بچے کو دے دیا تاکہ ہمیں دوبارہ سیف کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹیاں نہ کھانی پڑیں۔

اب ہم نے قلعہ بالتت، کریم آباد کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ پارکنگ میں گاڑی لگا کر قلعے کی طرف چڑھنے سے قبل اس کی ٹکٹ مبلغ 600 روپے کی حاصل کی جو تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر تھا اور ساری چڑھائی تھی۔ ہانپتے ہوئےراستےمیں ہم ایک چیری بیچنے والے کے پاس ڈھیر ہوگئے۔ چیری کے جوس کا پوچھا تو تین سو روپے فی گلاس۔ حسب معمول بھاؤ تاؤ شروع اور 250 پر بات آکر ختم ہوگئی۔ میں نے چیری کا جوس اپنے پاس موجود بوتل میں ڈال لیا اور سفر شروع کرنے کے دوران چھوٹی چھوٹی چسکیاں لیتا رہا۔ اس نے اکسیر کا کام کیا اور ہم بالاآخر قلعے تک پہنچ گئے لیکن ہمارا ایک ساتھی حسب معمول ٹہلتا ہوا بیس منٹ پہنچا۔

یہاں پر بہت ہی خوبصورت نظارہ ہمارا انتظار کررہا تھا جس نے ہماری ساری تھکاوٹ دور کردی۔ مٹیالے خشک پہاڑ، برف میں ڈھکی راکا پوشی، سرسبز وادی، نیلا آسمان اور اس میں تیرتے بادل، پھر اچانک پہاڑی کووں کا ایک غول فضا میں نمودار ہوا اور اس سے دور فضا میں گلائیڈرز نے ہماری توجہ کھینچ لی۔۔ یہاں پر ہم نے تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ بنائیں۔

پھر ہم ایک رہنما کے ساتھ قلعے میں داخل ہوئے۔ رہنما ہمیں قلعے اور بادشاہوں کے قصے سناتا رہا۔ کچھ سے ہم متفق ہوئے اور کچھ سے نہیں۔ خوبصورت بالکونیاں، خواب گاہیں، پنگوڑے، بندوقیں، قالین، باورچی خانہ اور اس میں استعمال ہونے والے اس زمانے کے برتن (جن کو دیکھ کر مجھے اپنا پرانا گھر یاد آگیا جہاں ہمارا بچپن گزرا تھا)، سردیوں اور گرمیوں میں استمال ہونے والی خواب گاہیں، کدو سے بنی ہوئیں صراحیاں، حنوط کی گئی نایاب مارکوپولو بھیڑ کا سر جو بقول رہنما کے اس نے بھی کبھی نہیں دیکھی، غرض یہ کہ بہت کچھ دیکھنے کو ادھر موجود تھا۔ وہاں پر تمام بادشاہوں کی تصاویر موجود تھیں لیکن ایک تصویر کافی مزاحیہ تھی۔ ادھر سے ہم جب باہر نکلے تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہم ٹائم مشین کے ذریعے ایک پرانے دور سے واپس لوٹ آئے ہوں۔

قلعہ سے واپسی کاسفر تیزی سے ہوا لیکن ہمارے ایک سست رفتار ساتھی نے حسب معمول آدھ گھنٹہ لیا۔ وہاں سے ہم نے اب کالام کا پروگرام بناکر واپسی کا سفر شروع کیا اور راستے میں گلگت کو عبور کرکےد ایک ریستوران پر رک کر دوپہر کا کھانا کھایا۔ انتہائی سست سروس تھی اور ہمیں اپنے شہر کے ریستوران یاد آگئے جہاں کے بیرے اتنی دیر میں بیسوں گاہک بھگتا دیتے تھے۔ کھانا بس گزارے لائق تھا۔ چائے وغیرہ پی کر روانہ ہونے سے قبل وقت دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہم ادھر دو گھنٹے گزارچکے ہیں۔ ویسے ادھر چار دال، دو پانی میں تیرتی سبزیوں اور چھ چائے کا بل 3400 روپے بنا تھا۔

واپسی پر تتہ پانی وغیرہ سے ہوتے ہوئے ایک پٹرول پمپ پر رک کر نماز مغرب ادا کی اور داسو کے راستے کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ڈیم پر کام کی وجہ سے راستہ صرف دو گھنٹے کھلتا ہے۔ باقی چلاس کی گرمی کا آپ سب کو پتا ہے۔ ہوٹل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چلاسیوں کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے اس لیے ہوشیاری سے کمرہ وغیرہ دیکھنا۔

رات کے تقریباً دس بجے ہم چلاس پہنچے اور ادھر مختلف لوگوں سے راستے کا پوچھا تو سب نے منع کیا کہ آپ پوری پوری رات یا پورا دن پھنسے رہ سکتے ہیں۔ بالاآخر ہم نے کالام کا پروگرام منسوخ کرکے رات کا کھانا کھا کر ہوٹل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ مجھے اور نعمان کو ایک خوبصورت ہوٹل گریس انٹرنیشنل نظر آیا جہاں پر ہم چھ بندوں کے لیے ٹنا ٹن اے سی کمرہ بمع دوعدد ڈبل بیڈ اور دومیٹرس کے ساتھ صرف پانچ ہزار پر مل گیا۔ انٹر نیٹ کی رفتار بھی باقی تمام علاقوں کی بہ نسبت بہت تیز تھی۔

مجھے تو چلاسیوں کے قول و فعل میں کوئی تضاد نظر نہیں آیا کیونکہ جاتے ہوئے بھی ہم ایک چھوٹے سے ریستوران پر رکے تھے جہاں کا مالک ایک خوش مزاج شخص تھا۔ ادھر بھی وعدے کے مطابق اے سی نے ساری رات کام کیا تھا اور یہ نہ تھا کہ رات کو بند ہوگیا ہو۔ بہرحال ہر بندے کا اپنا اپنا تجربہ ہوتا ہے اور اچھے برے اشخاص ہرجگہ پر ہیں۔۔

Check Also

Cholesterol Report Israeli Khane

By Mubashir Ali Zaidi