Shumali Ilaqa Jaat Ki Sair (4)
شمالی علاقہ جات کی سیر (4)
صبح صبح تنویر کی چیخ سے آنکھ کھلی جو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے چیخ رہا تھا کہ "یہ رہی راکا پوشی۔۔ میں نے "بھائی! دھیان سے کبھی ہاتھ نہ لگ جائے۔۔ " ایک اور آواز آئی "کھڑکی بند کر کبھی برفانی چیتا نہ آجائے۔۔ " لیکن جب ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو راکا پوشی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا جلوہ دکھا رہی تھی۔ موبائل پرسگنل بھی پورے تھے تو سب نے گرون کوکال ملا کر انہیں بھی راکا پوشی کا جلوہ کروادیا۔ اس کام کے بعد ہم صبح کا دھواں دار ناشتہ کرکے خنجراب پاس کی طرف روانہ ہوگئے جو ہنزہ سے ایک سو چوراسی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ہمارا پروگرام رستے میں کریم آباد سے بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر مصنوعی جھیل عطا آباد پر رکنے کا تھا۔
یہ مصنوعی جھیل چار جنوری دوہزار دس میں اس گاؤں سے گزرتے ہوئے دریائے ہنزہ پر ایک پہاڑ کے ٹوٹ کر گرنے سے وجود میں آئی۔ اس دریا کا بہاؤ پورے پانچ مہینے تک رکا رہا نتیجتاً چوبیس کلومیٹر سڑک مکمل طور پر زیر آب چلی گئی اور اس کی جگہ پر اتنی ہی کلومیٹر لمبی اور ایک سو دس میٹر گہری جھیل وجود میں آ گئی۔ ہنزہ کے لوگ پہاڑ گرنے اور اور سڑک کا چوبیس کلومیٹر زیر آب آنے کی وجہ سے پاکستان سے کٹ چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے کشتیاں منگوا کر اس کے ذریعے آمدورفت شروع کی۔ دوہزار دس میں پاکستان کی حکومت نے چین کی مدد سے سڑک کی بحالی کا کام شروع کیا اور اٹھتیس مہینے کی مدت میں سات کلومیٹر پر مشتمل پانچ سرنگیں تعمیر کیں اور دوہزار پندرہ میں ان پانچ سرنگوں کے ساتھ ساتھ سڑک کی تعمیر مکمل ہوگئی اور یوں 2015 میں خشکی کا یہ رستہ بحال ہوا۔
عطاء آباد جھیل اب پاکستان کے علاوہ دنیا کی مشہور جھیل بن چکی ہے جس میں سینکڑوں کشتیاں چلتی ہیں۔ پاکستان کے علاوہ بیرونی دنیا سے سیاح بڑے شوق سے یہاں آتے ہیں۔
تقریباً گیارہ بجے ہم عطا آباد جھیل پہنچ گئے۔ رستے میں موجود سرنگوں کے نظام کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی جو خوبصورت انداز میں بنی ہوئی تھیں۔ یہاں پہنچ کر ہمارے ایک ساتھی کو چُل ہوئی کہ واٹر موٹر سائیکل چلاؤں گا اور ساتھ ہی کہا تم سب میری ویڈیوز بنانا۔ مبلغ پچیس سو ادا کرنے کے بعد موٹر سائیکل پر بیٹھا۔ یاد رہے کہ ان کا بندہ بھی ساتھ پیچھے بیٹھتا ہے اور پانچ منٹ کے وقت کے ختم ہونے کے قریب ہینڈل خود پکڑ کر وحشی انداز میں زگ زیگ انداز میں بائیک کو اڑاتا ہے۔ اپنا موبائل اس نے ویڈیو بنانے کے لیے سب سے درویش ساتھی شعیب کو دیا اور خود اس نے کچھوے کی رفتار سے بائیک کو چلانا شروع کیا۔ ہم ادھر ادھر کےمناظر کی ویڈیو بنانے میں مشغول ہوگئے۔
جب وقت ختم ہوا تو اس نے آکر ہم سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا کہ میری ویڈیو کیوں نہیں بنائی۔ میری ویڈیو صحیح نہیں بنی ہے۔ جب ہم نے دیکھا و بھائی درویش نے بھی بس دور سے نقطوں کی مانند اس کی ویڈیو بنائی تھی۔ ہم نے کہا "تونے سوچا ہوگا تو اکشے کمار کی طرح ایکشن میں نظر آئے گا۔ " اس کی حالت دیکھ کر ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔
پھر ہم نے مبلغ 3400 سکہ رائج الوقت دے کر بیس منٹ کے لیے چھ افراد والی کشتی لی اور سٹاپ واچ چلا کر بڑی شان سے اس میں بیٹھ گئے۔ میں نے کہا کہ کشتی کو اس ہجوم سے دور اس موڑ کی طر لے چلو۔ وہ موڑ مڑ کر باقی کی نظروں سے اوجھل ہوکر کشتی بند ہوگئی اور ساتھ ہم سب کا مشترکہ قہقہہ برآمد ہوا کہ ہم اکٹھے ہوں اور کسی دوسرے پر نحوست نہ پڑے۔ اب وہ سٹارٹ کرنے کی کوششیں کرے اور ہم سب اپنی نحوستیں گنوانے میں لگے رہے۔
ہم نے کہا یار فون کرکے کسی کو بلالے تو اس نے کہا کہ "میرے پاس موبائل ہی نہیں ہے۔ "
ہم نے کہا کہ "اگر ہوتا بھی تو ہماری برکت سے کام نہ کرتا"۔
ہم نےکہا "یار لگتا ہے انجن میں کچرہ آگیا ہے کیونکہ ٹو سٹروک انجن ہے۔ "
ڈرائیور کہنے لگا "سر کل ہی کام کروایا تھا۔ "
"تو کیا ہو؟ اگر تو نئی کشتی بھی لے آتا اس نے خراب ہی ہونا تھا" ہمارے مشترکہ قہقہے کے ساتھ اقوال زریں نشر ہوا۔
وہ تنگ آکر پیچھے جاکر انجن کو چھیڑنے میں لگا گیا۔
ہمارے ایک انتہائی دبلے ساتھی کو بھی لائف جیکٹ پہنائی گئی تھی۔ جسے بند کھولے بغیر وہ اس میں سے نکلنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ اسے میں نے کہا "یار تو جیکٹ آگے نکال کر کرگس لگ رہا ہے وہ اس خطاب سے بہت خوش ہوا کہ یار کرگس لفظ بڑا خوبصورت ہے۔ پھر ایک قول نشر ہوا کہ "اگر کشتی ڈوب گئی تو لائف جیکٹ سے تو ایسے ہی نکل جائے گا اس لیے احتیاطا ہمارے انتہائی صحت مند دوست جس پر جیکٹ کے بند نہیں باندھے جاسکے تھے اس کے ساتھ ہوجا جوکہ جیکٹ کے بغیر بھی نہیں ڈوبے گا۔ " ہمارا ہنسی مزاق اس ہی طرح چلتا رہتا ہے اور بقول ہمارے ایک ساتھی کے کہ "میں کوئی وی لاگ آپ لوڈ نہیں کرسکتا ہوں کہ ہر ویڈیو میں تم لوگوں کی طرف سے کوئی نا کوئی نازیبا جملہ ضرور ہوتا ہے"۔ ویسے اس ہی لیے میں ہر ویڈیو پر کوئی میوزک لگادیتا ہوں۔ تصاویر کھینچنے کے لیے بھی میں کشتی میں سب سے آگے بیٹھا وگرنہ ہر تصویر میں ہم میں سے کوئی نہ کوئی ڈرا رہا ہوتا تھا۔
یہ ہنسی مذاق صرف اس لیے ہورہا تھا کہ ہم سب دوست اکٹھے تھے وگرنہ آپ خود سوچیے کہ اگر فیملی ساتھ ہوتی تو ہوش اڑجانے تھے۔
تقریباً 45 منٹ بعد کشتی سٹارٹ ہوئی اور ہمارے اس سفر کے یادگار لمحات میں اضافہ کرگئی۔
اس جھیل کی سیر بھی لازمی کرنی چاہیے۔ کیونکہ آپ یہاں سے راکاپوشیاور پاسو کونز کا دلکش نظارہ بھی کرسکتے تھے باقی جھیل کی اپنی خوبصورتی تو الگ ہی ہے۔
یہاں سے فارغ ہوکر ہم پارکنگ میں گئے تو گاڑی ریموٹ سے نہ کھلے اور جب چابی سے کھول کر بٹن پریس کیا تو گاڑی سٹارٹ نہ ہوئی۔ معلوم ہوا کہ سرنگ سے گزرتے ہوئے جب بتیاں جلائیں تھی تو اسے بند کرنا بھول گئے تھے۔ پھر دوست کو جو گاڑی چلا رہا تھا لعن طعن شروع کردی۔ میں نے پارکنگ میں موجود نیلے لباس والے ملازم سے بیٹری میں لگانے والی تار کا پوچھا تو اس نے سڑا سا منہ بناکر انکار کردیا کہ ایسی کوئی چیز ہمارے پاس نہیں ہے۔ اتنی دیر میں معزز بابا جی جنہوں نے ہم سے پارکنگ کے پیسے لیے تھے ادھر پہنچ کر سیدھے ہمارے پاس پہنچے اور اس خبیث کو کہا کہ تار لے کے آئے۔ وہ قریب موجود کھوکھے سے تاریں اٹھا کر لے آیا پھر میں نے اور باباجی نے ایک کار والے سے گاڑی ساتھ لگانے کو کہا۔ پھر گاڑی سٹارٹ ہوگئی تو دونوں کا شکریہ ادا کیا۔ بابا جی نے بتایا کہ "میں جب آپ کی کار کے پاس آیا تھا تو لائٹس جل رہی تھی لیکن آپ قریب نہیں تھے تو مجھے پتا تھا کہ آپ مشکل میں ہوسکتے ہیں۔ "
میں نے دوستوں کو کہا کہ "نیلے لباس والے نے انکار کیوں کیا تھا" تو انہوں نے کہا "چھوڑ یار! نکلتے ہیں۔ "
ادھر سے نکلے تو میں نے ادھر سے خریدی گئی ٹھنڈی ٹھار "سیون اپ" کے ڈھکن کی سیل گھما کر جیسے ہی بوتل منہ کو لگائی تو سادہ پانی تھا۔ میں نے دوستوں کو بتایا جو سفر کی شروعات سے ادھر کے لوگوں کے لیے رطب اللسان تھے کہا تو وہ بولے "تو ایویں شک کررہا ہے ادھر پکڑا۔۔ " جب انہوں نے گھونٹ بھرا تو بھونچکے رہ گئے کہ سادہ پانی تھا۔ لہذا اچھے برے لوگ ہرجگہ پر موجود ہیں۔
اب ہماری منزل خنجراب پاس تھا۔ ہم نے آخری قصبے سوست میں رک کر چار سو کی ایس کام سم خریدی اور ایک ہزار میں 6GB ڈیٹا لیا لیکن وہ سم بھی کچھ کچھ علاقوں میں کام کرتی ہے اور اس کی کارکردگی بھی مثالی نہیں ہے۔
کاغان ناران کی ہریالی کے بعد آپ کو اس سفر میں پہاڑوں کی جتنی اقسام نظر آئیں گے وہ کہیں اور نہیں ہیں۔ باقی کچھ لوگوں کے نزدیک صرف سنگلاخ پہاڑ ہیں لیکن میں پھر کہوں گا کہ آپ کو خوبصورتی ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ اِدھر رستےمیں ہمارے سامنے بیک وقت ریت والے پہاڑ، پتھریلے پہاڑ، مٹی کے پہاڑ، سرسبز پہاڑ ان کے اوپر سے جھانکتی برف سے ڈھکی راکا پوشی باربار سامنے آتی رہے گی بلکہ ایک جگہ پر برفیلی راکا پوشی کے پیچھے ایک گہرا سبز پہاڑ اور اس موجود بادل کا بہت ہی خوبصورت نظارہ دیکھنے میں آیا۔۔
مستنصر حسسین تارڑ نے کیا خوب کہا ہے کہ "مالک نے چند منظر صرف آوارہ گردوں کے لئے تخلیق کیے ہیں کچھ دنیا صرف خانہ بدوشوں کے لئے بنائی ہیں کچھ ہوائیں صرف ان کے جسموں کو چھونے کے لئے بنائی ہیں جن کے دماغ میں آوارگی کا فتور ہوتا ہے روزانہ ایک ہی بستر سے اٹھنے والے نہیں جانتے کہ کسی اجنبی وادی میں شب بسری کے بعد جب آوارہ گرد اپنے خیمے سے باہر آتا ہے تو اس کے سامنے ایک ایسا منظر ہوتا ہے جو وہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور یہ وہی منظر ہوتا ہے جو مالک نے صرف اس کے لئے صرف ایک لمحے کے لئے تخلیق کیا ہوتا ہے۔ "
راستے میں مختلف مناظر سے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم خنجراب پاس کے قریب پہنچے تو ٹورازم والوں نے مبلغ تین ہزار روپے یعنی پانچ سو روپے فی بندے کا مطالبہ کیا لیکن میری ہمراہی میں سوائے میرے سب حکومتی اداروں کے بندے تھے اور ایک بندے نے اپنا کارڈ دکھا کر ادھر بھی کافی بچت پروگرام کرلیا۔ اس کے بعد خنجراب سیکورٹی والے کو کارڈ دکھایا تو اس نے عزت کے ساتھ جاکر خود انٹری کروائی۔ بالاآخر خنجراب پاس کی پارکنگ میں گاڑی لگا کر پارکنگ فیس ادا کرکے باہر نکلے تو چاروں طرف موجود برفیلی پہاڑیوں سے آتی ہوئی یخ بستہ ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔
میں ایک عدد جیکٹ ساتھ لے کر گیا ہوا تھا اس وجہ سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہورہا تھا لیکن کچھ ساتھی بغیر جیکٹ کے تھے اور تھوڑی دیر میں ان پر کپکپی طاری ہوگئی۔ مجھے آس پاس پھیلے ہوئے برفیلے پہاڑ بہت خوبصورت لگ رہے تھے اور میں ان میں چلتی یخ بستہ ہواؤں کو اپنے ساتھ ہی لاہور لانا چاہتا تھا کہ شدید حبس کے موسم کا مقابلہ کرسکوں۔
ادھر اگر کسی کو سانس کی تکلیف ہے تو تیز چلنے سے پرہیز کرے اور اینہیلر ساتھ رکھے۔ اس کے علاوہ میرا ساتھی ادرک بھی لایا تھا جو میں نے تھوڑا سا چبالیا تھا کہ مجھے استہما ہے۔ یہ چیز میں اس لیے بھی بتا رہاہوں کہ آنے والوں کو کوئی مسئلہ نہ ہوں۔
وہاں گیٹ سے بہت پہلے ہی بیریر لگاکر لوگوں کو روکا ہوا تھا لیکن کچھ لوگ منتیں ترلے کرکے بیریر کے اس طرف جاکر تصاویر کھینچنے کے کوششوں میں مصروف تھے۔ ایک ایسی ہی فیملی بھی گارڈز کی منتیں کررہی تھی کہ ہمیں اپنے بچے کی سالگرہ مناتے ہوئے بیریر کے اس طرف تصویر کھینچنے دیں۔ ویسے سمجھ سے باہرتھا کہ گیٹ سے کافی دور صرف بیریر کے دوسری طرف آکر کیاشہریت مل جائے گی۔ خیر سانوں کی۔۔
واپسی کا سفر تیزی سے طے ہوا کیونکہ شام کے سائے بڑھ رہےتھے اور دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک بھی بس برائے نام ہی تھی۔
اب ہم نے حسینی سسپینشن برج پر قیام کیا۔ گاڑی کھلے میدان میں لگائی تو پرچی پکڑے ایک بھائی تشریف لے آئے۔ یقین کیجیے ادھر آپ بیلٹ کو ہاتھ لگائیں تو استنجے خانے کی پرچی لے کر آجاتے ہیں۔ گاڑی کہیں بھی کھڑی کرے تو پارکنگ کی ہرچی پکڑے بندہ نمودار ہوجاتا ہے۔ مجھےلگتا ہے ادھر ہر بندہ جیب میں پرچیاں پکڑے گھوم رہا ہوتا ہے کہ جہاں کوئی سیاح نظر آیا پرچی پکڑا دی۔
ہم سو سو روپے کی ٹکٹ خرید کر کافی نیچے کی طرف گئے ہمارے دو ساتھی ایک کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہیں جو پندرہ بیس منٹ میں ہم تک پہنچ گئے۔ لوہے کی تاروں کے سہارے لٹکے ہوئے پل پر ریلوے لائن کی پٹڑیوں کی طرح پھٹے لگے ہوئےتھے جن کے درمیان میں تھوڑا تھوڑا فاصلہ تھا۔ برج کے پاس لوگ کا جم غفیر تھا۔ ہماری ساتھ والی قطار فیمیلز کی تھی اور انہیں پہلے بھیج رہے تھے۔ کچھ لوگ بالخصوص خواتین چار قدم چل کر تصویر کھچواکر واپس آجاتی تھیں۔ وہاں پل پر موجود انتظامیہ کا بندہ انتہائی بدتمیز تھا۔ میرے ساتھی آگے تھے تو کہتا ہے "یہ قوم کتے کی دم کی طرح ہے۔ سیدھی نہیں ہوتی۔ " میرے ساتھی نعمان نےکہا "تو دیکھ نہیں رہا کہ ہم سارے قطار میں کھڑے ہیں اپنے الفاظ واپس لے" بحث بڑھتی چلی گئی تو پھر موصوف فرماتے ہیں"ہم نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے"۔ میں نے کہا "جناب! آپ کی کیوں نہیں ہوسکی" خیر وہ وہاں سے ایک طرف ہوگیا لیکن ایک غلط فہمی جو میرے ساتھیوں اور لوگوں کو ہے کہ ہنزہ کے تمام لوگ انتہائی اخلاق والے اور پڑھے لکھے ہیں دور ہوگئی۔
اللہ اللہ کرکے ہمارا نمبر آیا تو ہم نے اس جھولتے پل پر قدم رکھے اور یقین کیجیے بالکل بھی خوف محسوس نہ ہوا۔ رستے میں کراچی سے آئے ہوئے خوفزدہ میاں بیوی ملے تو حیرانگی سے بولے "ارے بھائی! آپ تو بہت ایکسپرٹ ہیں" میں نے "ہماری آدھی زندگی ریلوے لائن پر دوڑ لگاتے گزری ہے"۔ میں نے چار منٹ میں پل عبور کرلیا تھا۔
واپسی پر چڑھائی پر ہم نے ایک دوست کو باقاعدہ ڈنڈا ڈولی کرکے اوپر چڑھایا۔
میں حوصلہ افزائی کے لیے لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ "بس دو منٹ رہ گئے۔ آسان راستہ ہے دوڑ لگایے۔ "
یہ سن ایک ہانپتی کانپتی محترمہ بمشکل سانس بحال کرتی بولیں"لگ نہیں رہا بھیا کہ اس جنم میں اوپر پہنچوں گی"۔ میں نےکہا دو گھونٹ پانی کے پی لیجیے پھر مسئلہ نہیں ہوگا۔
آپ میں سے جس نےحسینی برج جانا ہے یا ادھر ادھر چلنا پھرنا ہے تو پانی کی بوتل جس میں ORS ملا ہو ضرور ساتھ رکھیے۔ اس کےدو گھونٹ لے تازگی آجاتی ہے۔
ادھر سےہم واپس ہوٹل پہنچے اور چھت پر باربی کیو کرنے کے بعد نیٹ کے ساتھ نبردوآزما ہوگئے جو ہماری طرح تھکا ہوا تھا۔
میرا مشاہدہ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر مبنی ہے جو حرف بحرف اس ہی طرح لکھے ہیں جیسے پیش آئے ہیں جن سے ہوسکتا ہو بہت سے لوگ اتفاق نہ کریں۔

