Shumali Ilaqa Jaat Ki Sair (2)
شمالی علاقہ جات کی سیر (2)
مجھے کہیں جاکر بہت کم نیند آتی ہے یہی وجہ تھی کہ رات تقریباً دو بجے کے قریب سوکر بھی چار بجے خودبخود فجر کی نماز کے لیے آنکھ کھل گئی۔ نماز کے بعد ایک دو فوٹو چھِک کر دوبارہ لیٹ گیا لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے نیند نہیں آئی اور کروٹیں بدل بدل کر باہر چلا گیا۔
واپس آکر ویڈیوز کو کمپائل کرکے پہلے دن کی ایک ویڈیو بنائی۔
ویسے پہلے دن کا سبق یہ تھا کہ فیملی کے ساتھ ویک اینڈ کاپروگرام مت بناؤ کیونکہ کمرے دس گنا تک مہنگے ملتے ہیں اور دوسرا سبق کے ڈرائیونگ کرتے وقت چھوٹا گئیر استعمال کریں کیونکہ شوخے ہوکر بڑے گئیر میں گاڑی چلاتے ہوئے بریکس کا بار بار استعمال بریک فیل بھی کرواسکتا ہے۔
میں گھر میں ٹھنڈے پانی سے نہیں نہاتا ہوں اور سوتے وقت بھی خاص تکیہ بھی استعمال کرتا ہوں لیکن گھر سے نکلتے ہی اپنے آپ کو حالات میں ڈھال لیتا ہوں اور ایسی ہی صورتحال آج بنی جب ٹھنڈے یخوخ پانی کو اس طرح جسم پر دھڑاڈھڑ ڈالا جیسے دشمنوں سے جنگ ہورہی ہے۔
صبح ناشتہ کرکے ایبٹ آباد سےنکلے تو موسم ابرآلود ہوچکا تھا اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ایبٹ آباد سے باہر نکل کر ہم مانسہرہ سے لیے موٹر وے پر چڑھ گئے۔ بھیگی سڑکیں، برستا آسمان، سرسبز پہاڑ اور دوستوں کا ساتھ ایک مثالی سفر۔۔
شاتھے سے موٹر وے سے اتر کر بالاکوٹ والی سڑک پر ہولیے جو کہیں سے غائب ہوجاتی تھی اور کہیں ٹوٹی پھوٹی اور کہیں سے درست حالت میں تھی۔ رستے میں ڈم گلہ میں بہت خوبصورت منظر آیا جس میں سفید اور کالے بادلوں نے پہاڑوں کو گھیرا ہوا تھا۔ وہاں رک کر ہم نے تصویر کشی کی اور پھر آگے کی طرف چل پڑے۔
پہاڑ نزدیک والے ہلکے سبز، تھوڑی دور والے تھوڑے زیادہ سبز، اس سے دور گہرے سبز نظرآرہے تھے اور ان کی خوبصورتی میں اضافہ سفید اور کالے بادل کررہے تھے جو ان کو ڈھانپنے کے کوشش کررہے تھے۔ دوست بھی کہہ رہے تھے پہلی دفعہ ہوا ہے پورا رستہ بدل اور بارش رہی ہے اور گرمی کا نام و نشان نہیں ہے۔ میں نے فوراً کہا میری برکات۔۔ اگر آپ لوگ ادھر سفر کرتے ہیں تو خوبصورت مقامات کو ذہن میں رکھیں اور وہاں رک کر لطف اندوز ہوں وگرنہ خالی سفر میں کچھ نہیں رکھا۔۔ آپ کو مناظر ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔
ہم نے بالاکوٹ پہنچ کر حاجی گلزرین کے مزیدار چپلی کباب کھا کر کڑاہی بنانے کے لیے گوشت لیا اور نماز پڑھنے سید احمد شہید کے نام سےموسوم جامع مسجد میں چلے گئے۔
کاغان سےپہلے کھنیاں پر دریائے کنہار پر ایک دلکش پوائنٹ آتا ہے۔ وہاں آرکیڈین اِن ریسٹ ہاؤس تھا جہاں ہم گھستے چلے گئے لیکن انہوں نے معذرت کی کہ اس کی بکنگ اسلام آباد سے ہوتی ہے۔ ہم نے لاکھ کہا کہ بھائی ہم بس دریا کنارے رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر نظارہ کریں گے لیکن انہوں نےاتنی معذرت کی کہ ہم شرمندہ ہوکر باہر آگئے بقول روف کے "شکر کرو دھکے مار کر نہیں نکالا۔۔ "
خیر آرکیڈین کے بالمقابل دیسی آرکیڈین میں جاکر نیچے دریا کے ساتھ بچھی ہوئی کرسیوں پر دراز اور چارپائیوں پر لم لیٹ ہوگئے۔ اب چاروں طرف سرسبز پہاڑ، شور مچاتے دریائے کنہار کا کنارہ، یخ بستہ ہوائیں اور اس پر دراز میں تھا فوراً خواب غفلت میں کھو گیا۔ میں آپ کو ریکمنڈ کروں گا کہ ادھر ضرور ٹھہریں کیونکہ منظر آپ کو کہیں اور نہیں ملے گا۔ میں اس کی ویڈیو بھی لگا رہا ہوں۔
خواتین، بچوں کے شور سے میری آنکھ کھلی تو تسلیم کو کھڑے پایا کہ تو جگہ مل کے رکھ میں ابھی آیا۔ میں نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور پی کیپ کو آنکھوں پر کرکے پھر سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن اب جسم پر کپکپی چڑھنے لگی تھی کیونکہ ٹی شرٹ میں ویسے سونے پر سہاگے والاحساب تھا لیکن میں ڈھیٹ بنا لیٹا رہا۔ وہ اوپر ریستوران والے کو کہنے لگے کہ "اس بھائی کو اٹھا دیں" لیکن ریستوران والے نے کہا خود اٹھا لو۔ (غیر معزز حلیے کے فائدے بہت ہیں)۔ جب مجھے کپکی چڑھ گئی تو میں نے سوچا اس سے پہلے منجمد ہوجاؤں تو میں بیٹھ گیا۔
پھر میں اوپر کی طرف چل پڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارے گروپ نے ایک کیبن میں قبضہ کیا ہوا ہے چکن کڑاہی بن رہی تھی اورچار میٹرس بھی تھے جن پر سب لیٹے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ پانچ سوروپے میں ریستوران کی رہائش (دیسی آرکیڈین) لے لی ہے۔ بیت الخلا میں جاکر باہر نکلا تو ایک بچہ بھاگ کر آیا اور پچاس روپے کا مطالبہ کردیا۔ میں نے کہا بھائی یہ جگہ ٹھیکے پر لے لی ہے۔ فوراً کہنے لگا شیلٹر والے گروپ میں ہو میں نےکہا آہو۔۔
پھر آٹا گوندھ کر ریستوران والوں سے روٹی بنوائی اور کڑاہی کے مزے اڑائے۔ یقین کیجیے ادھر کے ہوٹلوں کے کھانے کا کچھ ذائقہ نہیں ہے۔ جب ہم نے انہیں بھی کڑاہی کھلائی تو انہوں نے کہا ایسا کھانا ہم نہیں بنا سکتے ہیں۔
دل چاہ رہا تھا کہ اس ہی پرسکون جگہ پر رات گزاری جائے لیکن پھر ہم ناران کے لیے چل پڑے۔ ڈیم کے ساتھ چلتے چلتے راستے میں چھوٹے چھوٹے گلیشئیرز بھی تھی۔ ادھر خاص احتیاط کرنی چاہیے۔ آگے سرنگ سے گزرتے ہوئے کاغان سے گزرتے ہوئے ساڑھے آٹھ بجے ناران پہنچ گئے جہاں کافی گاڑیوں کا ہجوم تھا اور گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ میں اور عابد اتر گئے کہ ہم ہوٹل کا پتا کرتے ہیں۔ آفاق ہوٹل اپنا تعارف کرواتے رہے اور پھر اس نے کہا کہ "ادھر جگہ نہیں ہے آپ سومٹ میں جائیں۔ عام گاہک کے لیے پندرہ ہزار اور آپ بولو"۔۔ ہم نےکہا "بھائی دو ہزار روپے"۔۔ ہنسنے لگا کہ "کیا بات کرتے ہو۔۔ سومٹ ہوٹل میں چھ بیڈز کا کمرہ کروادیتا ہوں"۔ ہم اسے چھوڑ کر ایک تھکے ہوئے ہوٹل میں گئے کمرہ دیکھا اور کرایہ پوچھا تو مبلغ آٹھ ہزار۔۔ یقین کیجیے دو ہزار والا کمرہ بھی نہیں تھا۔۔ ہم نے چار ہزار ریٹ لگایا تو سات پر آگیا۔۔
خیر اسے چھوڑ کر ایسے ایسے ہوٹلوں میں بھی گئے جہاں صرف جرائم پیشہ لوگ ہی جاسکتے ہیں۔ سب کا منہ کھلا ہوا تھا کہ دس بیس ہزار۔۔ حالانکہ آج اتوار تھا اور لوگ واپسی کا سفر کررہے تھے۔
پھر پتا لگا کہ تسلیم نے ساڑھے پانچ ہزار میں کمرہ لے لیا ہے۔ ہم خوشی سے باچھیں چیرے ادھر پہنچے تو بحث ہورہی تھی۔ معلوم ہوا کہ ان کا دوسرا بندہ کہہ رہا ہے کہ آٹھ سے ایک پیسہ کم نہیں ہوگا اور بحث بڑھنے پر کہنے لگا کہ "ہم نے اپنے برادری والے بھائی کو نہیں دیا تو تمہیں کیوں دیں"۔۔ ہمیں بہت غصہ آیا اور بولے کہ بھائی ہم کیا تمہارے دشمن ہیں کمال کرتے ہو"۔۔
وہاں سے نکل کر کافی پی کر سوچا اس تھکےہارے تھک ہارے ہوٹل میں جاکر پانچ ہزار میں فائنل کرتے ہیں لیکن ایک سڑیل شخص تھا اور کہنے لگا "تم لوگوں کو لگ پتا جانا تھا جب یہ کمرہ پندرہ ہزار کا لیتے"۔۔ ہم نے کہا او ہیلو ہم پاگل تھے جو لیتے۔۔ ہم تو نتھیا گلی کو چھوڑ کر ایبٹ آباد میں دوہزار کا لیا تھا۔ فوراً بولا " مہنگا لیا تھا میں دھر ایک ہزار کا میں لے دیتاہوں۔۔ میں نے کہا "چل بات کر ہم واپسی پر ادھر ہی رکیں گے"۔۔ غصے میں آگ بگولا ہوگیا کہ اب سات ہزار پانچ سو تک کا دوں گا اور ایک روپیہ کم نہیں ہوگا۔۔ تمہیں اس سے سستا ملے تو مفت دوں گا۔ ہم نے کہا تو ہمیں نہیں جانتا ہم ویلے ترین لوگ ہیں اور ساری گھومیں گے اور تجھے لے کر دکھائیں گے۔ ہم نےبھی کہہ دیا جا تیرا کمرہ آج ویلا ہی رہے گا اور ہم تجھے پانچ تک کا لے کر دکھائیں گے۔ پیچھے آتا بولتا رہا اور ہم ہنستے رہے۔
اب ہمارا ایک اور گروپ کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔ ہم نے سوچا بس اب ناران سے باہر کمرہ لیں گے لیکن پھر اچانک ایک لڑکے نےکہا کمرہ۔۔ ہم نے کہا کتنے کا وہ بولا پانچ ہزار۔۔ ہم نے کہا چل بھائی اور کمرہ دیکھ کر فائنل کردیا کہ تین میٹرس مزید لگا دینا۔ اب ہم سب کے بحث شروع کہ کمرہ ٹھیک نہیں ہے اور اونچی آواز میں لڑنا اور ساتھ ہنسنا شروع۔۔ بے چارہ لڑکا جو پیسے لینے کھڑا تھا کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر دیکھتا۔ اب ہم نے اسے پیسے دیے تو وہ پوچھتا ہے "آپ سب دوست ہیں؟" میں نے کہا نہیں دشمن ہیں اور ادھر ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔۔
یہ سفرنامہ ہوٹلوں کے بھاؤ تاؤ پر مشتمل ہے لیکن میرا منظر کشی سے زیادہ فوکس ادھر آنے والی مشکلات پرہے جس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔۔ ادھر سوائے ایس کام اور ٹیلی نار کے دوسرےنیٹ ورک انتہائی ماٹھے ہیں جس کی وجہ سے میں نیٹ نہیں استعمال کرپارہا ہوں۔ ویسے بھی دن میں موقعہ نہیں ملتا ہے۔