Shumali Ilaqa Jaat Ki Sair (1)
شمالی علاقہ جات کی سیر (1)
میں حسب معمول فیس بک پر لگا ہوا تھا کہ میرے آبائی قصبے سے میرے دوست نعمان کا فون آیا کہ چھٹیاں لے لے بڑا زبردست پلان بنا ہے سیر کا اور بغیر سانس لیے اس نے کشمیر، ناران، کاغان، شوگران سری، پائے، ہنزہ اور خنجراب پاس پہنچ کر دم لیا۔
میرا منصوبہ سیال موڑ یا بھیرہ سے دوستوں کے ساتھ ہونے کا تھا کیونکہ انہوں نے ائیرپورٹ بھی کسی کو چھوڑنے جانا تھا۔ رات کو میں نے اعلان کیا اور بیٹی نے میرا بیگ تیار کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ "بابا آپ اسلام آباد پہنچ جائیں کہاں رستے میں بھٹکتے پھریں گے"۔ پہلے میں نے انکار کیا لیکن پھر منصوبہ تبدیل کرکے اسلام آباد پہنچ کر ساتھ ملنے کا منصوبہ بنالیا۔
تو جناب اس ہی سلسلے میں دوستوں کے ساتھ ایک گھنٹہ مری میں پھنسے رہنے کے بعد نتھیاگلی پہنچ کر قیام کرنے کا سوچ لیا۔ سوائے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تسلیم کے سوا سب نڈھال سے تھے اور نعمان جس نے میرے ساتھ ہائیکنگ کرنی ہے وہ مسلسل سوتا رہا۔
باڑیاں سے گزرتے ہوئے اے سی بند کردیا گیا اور چیتا گلی عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد پیٹ ہلکا اور بھرنے کا کام شروع کیا۔ مٹن کڑاہی گھر سے بنواکر لائی گئی تھی اور گرماگرم روٹیاں ہوٹل سے لگواکر ادھر بیٹھنے کا پوچھا تو مبلغ پانچ سو روپے کا مطالبہ کردیا گیا۔ ہم نے بھی مولوی عابد کے ہمارے ساتھ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ادھر موجود بغیر چھت کی پتھروں والی مسجد میں چٹائی بچھا کر کھانا شروع کردیا۔ فضا میں کافی خنکی تھی۔ پیٹ پوجا کے دوران ہی ایک موذن بھائی نے آکر اذان دینی شروع کردی اور اختتام پر ہم نے وضو کے لیے اٹھتے ہوئے اسے اور اس کے ساتھی کوبھی دعوت دی۔ ماشااللہ انہوں نے کڑاہی کے ساتھ بوتل کا بھی مطالبہ کردیا جو ہم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے موقعے پر پورا کردیا۔
واش روم والا جو پیٹ ہلکا کرنے کے پچاس روپے لے رہا تھا اس سے ہم نے ایک لٹر پانی کی بوتل بھروائی جس سے ہم دو بندوں نے وضو کیا۔ ویسے پانی کی بچت کا ادھر آکر ہی پتا چلتا ہے وگرنہ اپنے ادھر تو ہم ایک بالٹی پانی رول دیتے ہیں۔
نماز ادا کرنے کے دوران ہی بادلوں نے مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا اور ہم جو حبس سے گھبرائے ہوئے ٹی شرٹس میں ملبوس تھے اس خوبصورت موسم میں ہم جسموں کو کپکپاتی ہوئی ہوا کو محسوس کرکے سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔ جس طرح دسمبر جنوری میں دھند نے ہمارے علاقوں کو گھیرا ہوتا ہے بالکل وہی منظر تھا۔
اب ہم نے سفر شروع کیا لیکن ایوبیہ موڑ کے بعد ہی گاڑیوں کارش شروع ہوگیا۔ تسلیم، عابد اور میں نے گاڑی سے اتر کر ہوٹلوں کا دورہ شروع کردیا۔ الحمداللہ تمام ہوٹل بُک تھے اور جن دو چار میں جگہ تھی ان تمام مسلمانانِ نتھیا گلی نے بیس ہزار کا پہاڑا یاد کیا ہوا تھا۔ ادھر سے نکلتے ہوئے ساڑھے نو ہوگئے اور ہم نے سوچا کہ ادھر سے نکلتے ہوئے ہوٹلوں کا پتا کرتے چلیں گے اور اگر کام نا بنا تو ایبٹ آباد پہنچ کر سستا کمرہ مل جائے گا۔ جو لوگ ادھر جاچکے ہیں انہیں پتا ہی ہے کہ رات کو ان زگ زیگ سڑکوں پر گاڑی بھگانا کتنا مشکل کام ہے۔
نتھیا گلی میں اتنی خنکی نہیں تھی جتنی چیتا گلی میں تھی اور ہم اپنے ادھر رکنے کے فیصلے پر بار بار خوش ہورہے تھے۔ اتنی دیر میں گاڑی کے مالک سعید کو لیدر کی بو آنی شروع ہوگئی۔ پھر ٹائروں اور بریکس کو نہلانے کا عمل شروع ہوا اور جب تک دھواں نکلنا بند نہ ہوا اسے نہلاتے رہے۔ رات کے دس بج چکے تھے اور اب گاڑی کے مالک نے جو اس سے پہلے گاڑی نہ چلانے کا بہانہ کرچکا تھا کہ آنکھوں میں لینز کی وجہ سے رات کو گاڑی نہیں چلائی جاتی اب دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور میں کنڈیکٹر کی سیٹ پر آیت الکرسی پڑھتا ہوا بیٹھ گیا اور بار بار اس سے پوچھتا رہا کہ کہ بھائی نظر آرہا ہے نا۔
ایبٹ آباد پہنچ کر القریش گیسٹ ہاوس سے پتا کیا تو تمام کمرے بک تھے۔ باقی آگے نکل لیے تو میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ "پندرہ سو سے دو ہزار تک کے کمرے تھے"۔ مزید استسفار پر اس نے کہا کہ "آگے ہوٹل ون میں اے سی کمرے پانچ ہزار تک کے مل جائیں گے"۔ میں ادھر سے نکلا تو دوست ہنسی خوشی آرہے تھے کہ دو دو ہزار کے دو کمرے تاج ہوٹل میں مل گئے ہیں۔ جب میں نے پانچ ہزار میں اے سی روم کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے ہوٹل والے سے کہا "گرم پانی ہے" اور انکار پر مسترد کرکے وہاں سے بھاگم بھاگ ہوٹل ون پہنچے اور ریٹ معلوم کیا تو تیرہ ہزار بغیر جی ایس ٹی کے اور دو کمرے بھی لینے پڑیں گے۔ واپس تاج ہوٹل پہنچے تو اس نے کہا کمرے چڑھ گئے۔
ہم ساتھ موجود خان ہوٹل میں گئے اور اس نے پانچ بیڈ والا وی آئی پی کمرہ دکھایا اور ایک ایکسٹرا گدا بھی دینے کی پیشکش کی وہ بھی صرف بیس نہیں دس نہیں صرف دو ہزار میں۔ لیکن بار بار پوچھتا رہا صرف جینٹس ہیں نا اور آخر میں مجھے پھر ایک طرف لے جاکر پوچھا صرف جینٹس ہیں نا۔ میں نے کہا یار میری نوکیلی مونچھوں کا غلط مطلب مت لو بھائی۔ خیر ہم نے پھر کہا کہ یار ایک اضافی بیڈ ہی دے دو تو اس نےکہا خود اٹھانا پڑے گا۔ میں نے کہا بسم اللہ اور اس کے ساتھ بیڈ اٹھا کر لے آیا۔ تو میرے قارئین اسطرح پورے بارہ بجے ہمیں چھ بیڈ کا عظیم الشان کمرہ مل گیا اور وہ بھی مفت وائی فائی اور پارکنگ کی سہولیات کے ساتھ۔
کل ان شااللہ ناران کاغان کی طرف سفر ہوگا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔