Saturday, 29 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Qay

Qay

قے

(نفیس طبع لوگ اس تحریر سے دور رہیں اور اصلی ادبی لوگ جو میری اس قسم کی تحاریر کے دیوانے ہیں وہ یہ تحریر ضرور پڑھیں)۔

قے یا الٹی! یہ نام سنتے ہی اکثر لوگوں کو متلی ہوجاتی ہے اور اکثر لوگ کسی کو اس کا سرعام مظاہرہ کرتے دیکھ کر ناک بھوں چڑھا لیتے ہیں بلکہ کچھ تو اوک اوک کرتے باروں بار نکل جاتے ہیں۔

نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں

لیکن اگر ڈراموں اور فلموں میں نوبیاہتا دلہن اچانک اوک کہہ کر اندر بھاگے تو اس کا شوہر ہڑبڑا کر اس کے پیچھے ایسے جانے کی کوشش کرتا ہے جیسے وہ اس کی جیب کاٹ کر فرار ہورہی ہے لیکن پھر اس کی والدہ ماجدہ یا بڑی بھابھی انتہائی معنی خیز نگاہوں اور بدمعاش مسکراہٹ کے ساتھ اس بھولے سائیں کو سمجھاتی ہیں کہ "خوشخبری" ہے اور ادھر ٹی وی کے آگے بیٹھے لڑکے بالے یہ دیکھ کر لوفرانہ انداز میں ایسے مسکراتے ہیں کہ جیسے کہہ رہے ہوں "ہن آرام اے (اب آرام ہے)"۔۔

اس کے طبی فائدے تو بہت ہیں جیسے کھانا ہضم نہ ہو تو اس کے آنے پر طبعیت صحیح ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن میں کوئی طبیب نہیں اس لئے اس کے طبی فائدے آپ کسی طبیب سے سن لیجیے گا۔۔

فی الحال ہمارے بچپن میں اس کا سب سے بڑا فائدہ تھا کہ اگر چار پراٹھے اور تین کپ چائے پینے کے بعد غلطی سے تھوڑی بہت کھٹی ڈکار کے ساتھ ایک آدھ کھانے کا ذرہ نکل آتا تو اس کو الٹی کا نام دے دیا جاتا اور چھُٹی پکی ہوجاتی۔۔

ایک دفعہ پرائمری سکول میں میرے جڑواں بھائی کو بخار ہوگیا تو اس کی چھُٹی پکی ہوگئی۔ صبح اٹھ کر میں نے بہت کوشش کی طبعیت خراب کرنے کی، لیکن نہ ہوئی۔

آخر باہر صحن میں آکر زبردستی الٹی والی آواز نکال کر، چائے گرائی اور پھر اسے تھوکم تھوک کردیا۔

یہ آوازیں سن کر امی کو پریشانی کے عالم میں باہر آتا دیکھ کر میں نے خوشخبری دی کہ "الٹی آگئی ہے"

اب میری بھی چھٹی پکی ہوگئی تھی اور ہم دونوں بھائی سکون سے ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھنے کا پروگرام بنانے لگے۔

کچھ دیر کے بعد نیچے سیڑھیوں کا دروازہ کھٹکا اور اوپر سے جھانکنے پر پتا لگا کہ استاد جی نے سکول سے وفد بھیجا ہے ہمیں لے جانے کے لئے۔ امی نے بھی کہا "ماشااللہ اب تو طبعیت بھی سنبھلی لگ رہی ہے جاؤ"۔۔

اچانک میرے زرخیز ذہن میں ایک پلان آیا اور میں نے باورچی خانے میں پڑے دادی کے ساگودانے میں سے تین چار چمچ منہ میں انڈیلے اور ساتھ پڑی چائے کا ایک لمبا گھونٹ لے کر نیچے کی طرف لپکا۔

سامنے ثقلین موٹو چہرے پر منحوس مسکراہٹ سجائے، سعید کالو اور اکرم گینڈے کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے جاتے ہی اوک کی آواز کے ساتھ انکے اوپر چھڑکاؤ کردیا۔ ان تمام جلادوں نے باہر لگے نلکے کی طرف دُڑکی لگائی اور میں ان کے پیچھے پیچھے کہ "بتاؤ! کیا کام ہے؟"

وہ دن ان کا آخری دن تھا جب وہ مجھے لینے آئے اور اس کے بعد ان کی سات نسلوں نے بھی توبہ کرلی کہ کسی کو لینے نہیں جائیں گے۔

یہ واقعہ جب میں نے اپنے ایک بزرگ کو سنایا جن کے ساتھ بہت شغل میلے لگاتے تھے تو انہوں نے مجھے شاباش دی اور ساتھ ہی اپنی بھرپور جوانی کا ایک قصہ سنایا کہ جب وہ غیر شادی شدہ تھے اور ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہر میں رہتے تھے۔۔ وہ قصہ ان ہی کی زبانی آپ لوگوں کی نظر۔۔

ایک دفعہ میں بکرے کا ڈیڑھ کلو گوشت لے کر آیا اور کڑاہی گوشت بنایا۔ بدقسمتی سے اس کے خوشبو ساتھ والے شادی شدہ پڑوسی کے گھر پہنچ گئی۔

وہ نیک بخت میرے گھر آن پہنچا اور بولا "یار! ہمیں ایک دوسرے کی دعوت کرنی چاہئے، اس لئے آج کا کھانا تیرے ساتھ اور اگلے ہفتے میری طرف"۔۔

میں نے کہا "ٹھیک ہے لیکن گوشت چھوٹے کا ہوگا اور اتنا ہونا چاہئے کہ اگلے بندے کا پیٹ بھر جائے"۔۔

اس نے فوراً حامی بھر لی۔۔

خیر وہ ظالم آدمی جب کھانے بیٹھا تو اس نے ایک نوالے کے ساتھ ایک بوٹی اٹھا کر رگڑنی شروع کی۔۔ میں بے بسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا اور ظالم تقریباً سوا کلو گوشت رگڑنے کے بعد بولا "مزا آگیا یار! باقی تو کھا لے"۔

میں نے کہا "اگر پیٹ نہیں بھرا تو اور کھالے بھائی"

کہنے لگا "میں حلق تک سیر ہوں، اب اگلے ہفتے تیری دعوت"۔۔

ایک ہفتے یعنی سات دنوں کے بعد وہ مبارک گھڑی آئی جب میں اس کے گھر گیا۔۔

میرے سامنے گوشت سے بھرا ہوا ڈونگا آیا جو میں نے چکھنے چکھانے میں مُکّا دیا۔

میرے دوسرا ڈونگا ختم کرنے کے بعد اور تین گلاس پانی پینے کے بعد، اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی کہ اب یہ اور نہیں کھا سکے گا۔ اس نے میرے سامنے تیسرا ڈونگا رکھا اور بولا "اور چاہئے تو بتانا"۔۔

میں نے کہا "میں ذرا ابھی آیا" اور باہر گلی میں جاکر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔۔

میں نے حلق میں انگلی ماری اور میرا جی جو پہلے ہی دوڈونگے اور تین گلاس پانی کے پی کر متلا رہا تھا اس نے فوری طور پر سارا کھایا پیا باہر نکال دیا۔۔ میری طبعیت دوبارہ سے ہشاش بشاش ہوگئی اور معدہ بھی خالی ہوگیا۔۔

میں کلی کرکے دوبارہ کھانے بیٹھا۔ جب وہ تیسرے کے بعد چوتھا ڈونگا لے کر آیا اور میں نے کمالِ رغبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو خالی کرنے کے بعد اس کی طرف متلاشی نگاہوں سے دیکھا تو وہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور بولا "مائی باپ میری توبہ جو دوبارہ تجھ سے دعوت کھائی اب صرف میرے اور میری گھر والی کے لئے بچا ہے اب کہو تو لے آؤں"۔۔

"لے آ یار! " میں جلاد بن کر بولا۔

اس کی شکل سے یتیمی، مسکینی برسنے لگی اور جب وہ بیوی کی جھاڑ کھا کر پانچواں اور آخری ڈونگا لے کر آیا تو اس کے چہرے سے مظلومیت بھی ٹپکنے لگی تھی۔

میں نے آدھے سے زیادہ ڈونگا ختم کرکے کمالِ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا "جا یار! یہ تیرا اور بھابھی کا حصہ"۔۔

اب پتا نہیں اس کے ساتھ بعد میں کیا بنی لیکن میرا پیچھا اس "بھوکے" شخص سے ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا۔۔

یہ والا طریقہ میں نے کبھی نہیں آزمایا ہے لیکن آپ آزما سکتے ہیں۔۔

اس ہی طرح میں ایک بارات میں شامل ہوا تو میرا چھوٹا کزن بھی زبردستی شامل ہوگیا اور ظالم بچے نے بس میں سوار ہونے سے پہلے اس طرح کھانا ٹھونسا جیسے بارات پر نہیں بلکہ صحرا کی سیر کو جارہا ہے جہاں کھانے کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے شہر کا ایک بندہ (اللہ غریقِ رحمت کرے) اس کے ساتھ سیٹ پر بیٹھ گیا۔

تھوڑے سفر کے بعد اوک کی آواز آئی اور پھر تانتا بندھ گیا لیکن ہماری آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اس آدمی نے سارا کھایا پیا اپنے ہاتھ پر لے لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا سر پکڑ کر رکھا۔

جب سب گھن کھانے لگے تو بولا "یار! اپنی اولاد ہوتی تو بھی تو خیال کرنا تھا"۔۔

لیکن آفرین ہے میرے کزن پر جس نے الٹی کا پورا کوٹ نکلنے کا بھی انتظار نہ کیا اور ہمسائے سے کیلا پکڑ کر کھانا شروع کردیا اور یقین کریں میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اس پیٹو کو اٹھا کر باہر پھینک دوں۔۔

اس واقعے کو اس لئے بتانا مقصود تھا کہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے بچوں کو بھی اپنا بچہ سمجھتے ہیں۔

تو دوستوں آپ کی بھی کچھ یادیں ایسی ہی ہوں گی تو شرمائیے گا مت اور ہم سے اپنی ایسی یادیں بانٹ کر شکریے کا موقعہ دیں۔۔

ویسے میں ڈکار کو بھی اس میں شامل کرنا چاہ رہاتھا لیکن اس کی شان میں پھر کبھی لکھوں گا۔۔

Check Also

Kya Waqai Roshni Ko Munjamid Kar Diya Gaya?

By Saqib Ali