Pohnchi Wahin Pe Khaak Jahan Ka Khameer Tha
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
صبح صبح مابدولت جیب میں مبلغ پانچ سو روپیہ رائج الوقت ڈال کر دکان پر جاکر بریڈ، رس اور بسکٹ کے پیکٹ کا حکم جاری کرکے دس روپے واپسی کی امید لگا کر دکاندار سے پیسے پوچھے تو اس نے دس روپے اوپر بتا دیے استسفار پر بتایا کہ یہ ٹشو نما تھیلے کے بیس روپے ہیں جو ایک استعمال کے بعد کام کا نہیں رہ جاتا ہے۔
میری نظروں کے سامنے میرا بچپن گھوم گیا جب مابدولت کپڑے کا تھیلا ہاتھ میں پکڑ کر رسول بخش کی ہٹی پر جایا کرتے تھے۔ پانچ کلو چینی قدرے موٹے کاغذ کے بنے ہوئے بھورے رنگ کے لفافے میں اور ایک کلو یا پاؤ دال وغیرہ قدرے ہلکے بھورے اور کم موٹے لفافے میں ڈال کر دی جاتی اور بوقت ضرورت دھاگے سے لپیٹ کر دی جاتی تھی۔ (یہ لفافے مرد و خواتین اپنے گھروں پر تیار کرکے دکانوں پر دیا کرتے تھے) اس ہی طرح دودھ اور دہی ہمیشہ برتن میں لایا جاتا تھا۔
پھر شاپر کا دور دورہ آگیا اور پھل، سبزی، دالیں، دودھ، دہی بھی دھڑادھڑ شاپرز میں دی جانے لگی۔ یہاں تک کہ تازہ تازہ حرام مشروب بھی شاپر میں مہیا کیا جانے لگا۔
اب کافی عرصے سے ارباب اقتدار کو شاپرز کے نقصانات پتا چلے تو اس پر پابندی کو سوچا جانے لگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سارا بوجھ صارفین پر ڈالنے کی بجائے کاغذ کی تھیلیاں جو سستی بھی ہوتی ہیں ان پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور صارفین کو بھی دوبارہ سے کپڑے کے تھیلے جو پرانی چادر یا جینز سے بنائے جاتے تھے ان کا استعمال شروع کردیا چاہیے۔
یعنی جو چیز ہم چھوڑ چکے تھے واپس سے اسے پکڑ لیں۔
چھوڑنے سے یاد آیا کہ کبھی ہم لوگ خوردنی نمک استعمال کرتے تھے اور غالباً یہ سستی ترین چیز ہوتی تھی جو آسانی سے ایک دو روپے خرچ کرکے دوتین مہینے نکال جاتی تھی۔ بلکہ کچھ لوگ چونی اٹھنی کے نمک کا ڈلا گر لاکر بھی پیس لیا کرتے تھا اور روپیہ دو روپیہ بھی بچالیتے تھے لیکن پھر کسی دردمند کو خیال آیا کہ اس نمک میں آیوڈین بھی ہونی چاہیے اور پھر پوری قوم کی ذہن سازی کرکے اسے مہنگے آیوڈین ملے نمک کی طرف راغب کردیا گیا۔
آج بہت سی دہائیاں گزارنے کے بعد خیال آیا کہ اوہو اصل چیز تو گلابی نمک تھا ہم تو خوامخواہ آیوڈین ملے نمک کے پیچھے لگ گئے تھے لیکن اب اس گلابی نمک کے نخرے بھی پیکٹ میں پہنچ کر آسمان کو چھو گئے ہیں۔
یاد آیا کبھی ہم گڑ شکر کی چائے پیا کرتے تھے پھر ولایتی کھانڈ یعنی مہنگی چینی کا ظہور ہوا اور شکر کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور آج کئی دہائیوں بعد بڑے بڑے چائے خانوں میں شکر کی چائے مہنگے داموں بکنی شروع ہوگئی ہے۔
یہ سب چیزیں تو چھوڑ دیں ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین سے نکلنے والے مفت کے پانی کو چھوڑ کر مہنگے داموں پانی خریدنا شروع کر دیا جس کو منرل واٹر کا نام دے کر لوگ ہاتھ میں پکڑ اپنے آپ کو نازک مزاج یا امیر ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ چھوٹے دیہات یا قصبات جہاں پر انڈسٹریز ہیں ہی نہیں ان کے ذہن میں بھی ڈال دیا گیا کہ سینکڑوں فٹ نیچے سے نکلنے والا تازہ پانی زہر اور بوتلوں میں بند پانی آب حیات ہے۔ ہم لوگ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ اس کے پیچھے لگ گئے۔ حالانکہ سمجھدار اور درد دل رکھنے ڈاکٹر (جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے) ہمیشہ بچوں کو عام پانی پلانے کی نصیحت کرتے ہیں کہ اس سے بچے کا مدافعاتی نظام مضبوط ہوتا ہے لیکن چھوڑیے جناب ہم نے تو کمزور ترین نازک قوم ہی بنانی ہے تو خودساختہ منرل واٹر ہی پئیں گے۔
پانی سے یاد آیا کہ کبھی پانی تیس چالیس فٹ سے ہی مل جاتا تھا جس کو نلکا چلا کر حسب ضرورت نکالا جاتا تھا۔ اس وقت کچے صحن ہوتے تھے اور کھلے کھیلنے کے میدان ہوتے تھے اور جب جب بارشیں ہوتیں سارا پانی زمین میں چلا جاتا تھا اور پانی کا لیول اونچا ہی رہتا تھا۔ اب کچے صحن اور میدان ختم کردیے گئے جس کے نتیجے میں پانی نیچے جانا بہت ہی کم ہوگیا اور پانی کا لیول بھی نیچے سے نیچے ہی جارہا ہے۔
اب اس قوم کو ڈبے کے دودھ کی طرف لگانے کی کوشش ہورہی ہے اور کوئی پتا نہیں کہ کھلے دودھ پر پابندی لگا دیں۔ حالانکہ ڈبے کا دودھ زیادہ تر وائٹنر یا پاؤڈر ملک ہی ہوتا ہے لیکن بھلا ہو مشہوری بنانے والی جنہوں نے قوم کو بتایا کہ ڈبے کا دودھ ہی حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ حالانکہ آپ خالص دودھ کو اس گرمی میں کچھ دیر کے لیے کھلا رکھ دیں تو وہ ایسے ہی خراب ہوجاتا ہے لیکن ڈبے میں دنوں تک محفوظ رہتا ہے یہ خالص دودھ۔۔ ہے نا کمال۔۔
باقی باتیں چھوڑیے یہ جو برائلر مرغی ہم اپنے سامنے ذبح کروا کر لاتے ہیں۔ عنقریب لگتا ہے اس پر بھی پابندی لگ جائے گی کہ مکھیاں بیٹھتی ہیں گندگی پھیلتی ہے تو جناب آپ پیکٹوں میں بند ہفتوں سے محفوظ منجمد گوشت خریدیے اور صحت مند زندگی پایے۔۔
بات لمبی ہوتی جارہی ہے لیکن میں ابھی تک مفت پانی جو ڈھائی سو فٹ نیچے سے آرہا ہے پی رہا ہوں، کھلا دودھ استعمال کرتا ہوں اور ان شا اللہ کرتارہوں گا۔ باقی آپ لوگوں کی مرضی جو استعمال کریں میرا فرض تھا آپ کو بتانا۔۔ شکریے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو میرا فرض تھا۔
خبردار جو کسی نےکاپی پیسٹ کیا۔ اگلی معاشرتی فلاحی تحریر ایک کرورڑ پچھتر ہزار چار سو چولیس لائکس کے بعد۔۔
خوش رہیے اپنے خرچے پر۔۔