Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Pachtawa

Pachtawa

پچھتاوا

"اکبر میں اپنے بچے لے کر اپنے میکے جارہی ہوں اور آپ رہتے رہیں اپنی اماں کے ساتھ" ارم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

"دیکھو! اماں کا ہم دو بھائیوں کے علاوہ کون ہے انہوں نے بڑی مشکلوں سے ہماری پرورش کی تھی اور اب۔۔ میری تو ہمت نہیں ہورہی اس موضوع پر ان سے بات کرنے کی" اکبر صلح جو لہجے میں بولا۔

"اس کی فکر چھوڑو وہ میں کرلوں گی۔ ویسے بھی بڑی سوسائٹی میں ابا نے مکان ڈھونڈ لیا ہے آپ قسطوں مں ادائیگی کردینا" ارم نے دو ٹوک بات کی اور اماں کے کمرے کی طرف چل دی۔

"اماں آپ کو علم ہونا چاہیے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم اسلام میں حرام ہے اور آپ نے حدیث بھی سنی ہوگی کہ دیور موت ہے تو اس لیے میں مزید گناہ گار نہیں بن سکتی اور اپنے شوہر کو لے کر الگ ہو رہی ہوں۔ امید ہے آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا کیونکہ ماشااللہ آپ تو قران پاک بھی پڑھتی ہیں۔ ویسے اکبر چکر لگاتے رہا کریں گے"۔

ارم کی یہ بات سن کنیز بیگم نے غیریقینی کی کیفیت میں اپنی بغیر دوپٹے کے کھڑی بہو کی طرف دیکھا اور پھر اپنے بیٹے کے طرف جو ایک طرف گردن جھکائے کھڑا تھا۔

کنیز بیگم اپنے دو بیٹوں اکبر اور شکیل کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اکبر کے تین بچے تھے اور وہ کافی خوشحال تھا۔ اس کی بیوی ارم کو لگتا تھا کہ اس کا شوہر سارے پیسے اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کی فیملی پر لگا رہا ہے اس لیے اس نے لڑجھگڑ کر اکبر کو علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا تھا۔

"اماں مجھے دوبئی سے ملازمت کی پیشکش آئی ہے اور اگلے مہینے میں اپنی بیوی کے ساتھ جارہا ہوں" شکیل نے اپنی ماں کو خبر سنا کر اس کے سر پر ایک اور بم پھوڑ دیا کیونکہ اس کی بیوی نے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ بھی اب مزید ساس کی خدمت نہیں کرسکتی ہے۔

کنیز بیگم کچھ نہیں بولی اور گزارے کے لیے اپنے گھر کا اوپر والا پورشن کرائے پر دے کر محلے کے بچوں کو قران پڑھانا شروع کردیا۔ آبائی محلہ تھا لوگ بھی خیال کرتے تھے اور جب کبھی طبعیت خراب ہوتی تو کوئی محلے کا بچہ بھی ساتھ سوجاتا تھا۔ اکبر جو مہینے میں ایک ایک چکر لگاتا تھا اب مہینوں اپنی شکل نہ دکھاتا تھا۔ پھر ایک روز کنیز بیگم کا دل بہت گھبرایا تو اس نے کرائے داروں کے بچے کو ساتھ سونے کو کہا۔ صبح جب بچے کی آنکھ کھلی تو اس نے انہیں بےسدھ پایا اور اس کے شور کرنے پر اس کے ماں باپ نیچے آئے تو اس کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر کو بلایا جس نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔

محلے والوں نے اکبر کو اطلاع کی جس نے تدفین وغیرہ کروادی۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ اکبر کی وفات ہوچکی تھی اور اب ارم اکیلی اپنے بیٹے علی اور بہو کے ساتھ رہ رہی تھی۔ وہ جوڑوں کے درد سے بےحال دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہوچکی تھی۔

علی کو دوسرے ملک سے ملازمت کی آفر آئی تو اس نے اپنی بیوی ثنا کو بتایا کہ امی کا سامان بھی پیک کرلینا لیکن ثنا اڑگئی کہ وہ اب مزید ملازمہ کا کردار ادا نہیں کرسکتی ہے۔ ویسے بھی اسلام کی رو سے ساس کی خدمت اس کی ذمہ داری نہیں ہے اور اگر یہ ساتھ چلی بھی گئی تو میں نے پانی تک نہیں پوچھنا ہے۔ اس کی بلند آواز دوسرے کمرے میں ارم کےکانوں تک بھی پہنچ رہی تھی جو اپنا دل پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ چکی تھی۔

بہو بیٹے اور پوتے پوتی کے جانے کے بعد یہ بڑا گھر ارم کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ یہ ایک بڑی سوسائٹی تھی جہاں ایک دوسرے کے گھر جانے کا بھی کوئی رواج نہیں تھا۔ پہلی رات اسے رہ رہ کر اپنی ساس کا خیال آرہا تھا جس کو یہ چھوڑ آئی تھی۔ اس وقت اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسا وقت اس پر بھی آئے گا۔ رات کے کسی پہر اس کی آنکھ کھلی اور اسے اپنے دل میں درد محسوس ہوا۔ اس نے اٹھ کر گولی کھانے کے لیے دراز کھولی تو گولیوں کا خالی پتا اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ اس نے بیڈ سے اتر کر چارجنگ لگے موبائل کی طرف جانا چاہا لیکن ایک جھٹکے سے وہیں فرش پر گر کر درد کی شدت سے تڑپنے لگی۔ اس نے چیخیں ماریں لیکن محلے دار بھی اس کی طرح بند کمروں میں سوئے ہوئے تھے۔ اسے اپنی ساس ایک کونے میں مسکراتی کھڑی نظر آئی اور اس نے چاہا کہ ان سے معافی مانگے لیکن فرشتہ اجل آن پہنچا تھا۔

اگلے دن ملازمہ نے گیٹ پر گھنٹی بجائی اور جواب نہ پاکر چلی گئی کہ ہوسکتا ہے یہ اپنے بیٹے کے ساتھ نہ چلی گئی ہو۔ دوسرے دن بھی جب یہی ہوا تو اس نے شام کو اپنے شوہر سے ذکر کیا جس نے موبائل پر فون کیا اور جواب نا پاکر اگلے دن اس کے ساتھ گیٹ پر آکر گھنٹی بجاتے رہے۔ ملازمہ اسی سوسائٹی کے ایک اور گھر میں کام کرتی تھی۔ وہ اور اس کا شوہر ان کے گھر گئے تو انہوں نے سوسائٹی کی انتظامیہ کو فون کیا جنہوں نے پولیس کی مدد سے دروازہ کھولا تو ارم مردہ حالت میں ملی۔ اس کے بیٹے کو فون کیا گیا جو کہ پہنچ نہیں سکتا تھا اور میت کی بری حالت کے پیش نظر اس نے اپنے رشتےداروں کو فون کرکے تدفین کا کہا۔ اس طرح ایک اور ماں اپنے بچے کے کندھے کے بغیر اپنی آخری آرام گاہ کو پہنچ گئی۔

یہ کہانی اس وقت بہت سے گھروں کی ہے۔ کچھ پاکستانی والدین اب اولڈ ہومز میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر کہانی میں بہو قصوروار ہے کیونکہ کچھ قصوں میں ساس سسر بھی ظلم ڈھاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس میں اصل قصوروار مرد ہے جو رشتوں میں توازن نہیں رکھ پاتا ہے۔ کچھ مرد بیوی کے قدموں میں گرجاتے ہیں اور کچھ بیوی کو ماں باپ کے قدموں میں گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرد بنو اور ہررشتے کے تقدس کو برقرار رکھنا سیکھو۔ خواتین سے بھی عرض ہے کہ اسلام صلہ رحمی کا بھی درس دیتا ہے۔ والدین، رشتےداروں اور ہمسایوں کے حقوق کا بھی بتاتا ہے تو شوہر کے ماں باپ کو رشتےدار سمجھ لو کیونکہ ماں باپ آپ کے بھی ہیں۔ باقی صحت تندرستی تمام عمر نہیں رہتی ہے۔

Check Also

Zehni Mareez

By Syed Mehdi Bukhari