Nateeja
نتیجہ
ہمارے زمانہ طالبعلمی میں کچھ بچے سکول یا کالج کا امتحان دینے کے بعد ایسے خوش ہوتے تھے کہ جیسے بورڈ میں ان کی کوئی نہ کوئی پوزیشن لازمی آنی ہے لیکن نتیجہ آنے پر وہ عموماً تیسرے درجے میں بھی بمشکل پاس ہوتے تھے۔
انہی دنوں میرا ایک کزن حمید بی ایس سی میں فیل ہوگیا اور پھر میرے مشورے پر اس نے بائی پارٹس پرچے دینے کا منصوبہ بنایا اور دوسرے چانس میں صرف دو مضامین کے پرچے دیے۔
ہمارے محلے کی ایک لڑکی نے بھی اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر بی اے کے پرچے دیے تھے اور اس کا رولنمبر ہمیں پتا نہیں تھا۔ وہ اکثر شام کو کزن کے گھر آجاتی اور اس کی امی کے سامنے ڈینگیں مارتی رہتی کہ "دیکھیے آنٹی میں نے تمام پرچے دیے ہیں اور اس دفعہ پاس ہوجاؤں گی۔ حمید کو مشورے دینے والا بندہ غلط ہے وغیرہ وغیرہ"
اس کی ڈینگوں کے دوران میرے کزن کی امی دونوں کی طرف خشمگیں نگاہوں سے گھورتی رہتی اور اس کے جانے کے بعد کہتیں کہ "دیکھو! یہ ہوتے ہیں محنتی اور عقلمند لوگ اور ایک تم ہو۔۔ "
ہم دونوں آنٹی کو یقین دلاتے کہ یہ ایویں شوخیاں ماررہی ہے اور حمید کے نمبر اس سے بہت اچھے آئیں گے۔
اللہ اللہ کرکے نتیجے کا دن آیا۔ حمید کے دونوں پرچوں میں بہت اچھے نمبر آئے تھے، ابھی ہم اس کے گھر کھڑے اس کی امی کو بتا ہی رہے تھے کہ اچانک زور زور سے حمید، حمید کی آوازیں آئیں۔ دروازے پر دیکھا تو موصوفہ خوشی سے لال ہوتا منہ لے کر اندر داخل ہورہی تھی۔
"مارے گئے! لگتا ہے پاس ہوگئی" میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
"میری ٹانگوں سے جان نکل رہی ہے۔ حمید میرے کانوں میں پھسپھسایا اور ساتھ ہی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
"حمید حمید میں تمام مضامین پاس ہوگئی ہوں، یاہو۔۔ آنٹی میں پاس ہوگئی ہوں۔۔ " اس نے چیختے ہوئے آنٹی کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
اس کے دانت اندر نہیں جارہے تھے اور وہ اتنے جوش میں تھی کہ لگ رہا تھا کہ اپنا سر دیوار میں مار کر پھوڑ لے گی۔
حمید کی آنکھوں کے آنکھیں اندھیرا چھا گیا اور مجھے لگ رہا تھا کہ اس کا دل ہی نہ بند ہوجائے اوربعد میں اس نے مجھے بتایا کہ اس کا یہی حال تھا۔
"اچھا میں شام کو مٹھائی لے کر آؤں گی۔ " یہ کہتے ہوئے وہ تو چلی گئی لیکن پھر آنٹی نے جو حمید کے لتے لیے وہ تاریخ میں امر ہوگئے۔
مجھے یقین اب بھی نہیں آرہا تھا لیکن کیا ہوسکتا تھا۔ اب صبح، دوپہر اور شام کو حمید کو آنٹی سے طعنے ملتے تھے اور ساتھ ہی مشورے دینے والی کی شان میں بھی بہت کچھ کہاجاتا تھا۔
تقریباً پندرہ بیس دن بعد ہم حسب معمول باہر تھڑے پر بیٹھے ہوئے تھے تو ڈاکیا ایک لفافہ لے کر اس لڑکی کے گھر کاپتا پوچھنے لگا۔ میری عقابی نگاہیں بھانپ گئیں کہ لفافے میں رزلٹ کارڈ وغیرہ ہے۔ میں نے فوراً اس کے ہاتھ سے لفافہ پکڑلیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں، میں شام کو انہیں دے دوں گا۔ لفافہ پکڑتے ہی ہم اندر کی طرف بھاگے۔
اندر جاکر میں نے بڑی مہارت کے ساتھ لفافہ کھولا اور جیسے ہی رزلٹ کارڈ پر نگاہ پڑی تو ہم دونوں کے دل بند ہوتے ہوتے رہ گئے (خوشی کے مارے)۔۔ موصوفہ تمام مضامین میں بہت شان و شوکت کے ساتھ فیل تھی۔ اس وقت ہم نے جو خوشی سے بھنگڑے ڈالے اور چیخیں ماریں تو آنٹی بھاگی چلی آئیں کہ ہوا کیا۔۔
ہم نے بڑے احترام کے ساتھ انہیں رزلٹ کارڈ دکھایا تو ہمارے دلوں کو سکون آیا۔
پھر ہم نے جو موصوفہ کی آتما کو رولا وہ بھی تاریخ کے پنوں میں رقم ہوگیا۔
یقیناً آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہوگا۔